شکر کرنا ۔ سحر شاہ
ہمیں مستقل کئی قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا زیادہ تر وقت مختلف پریشانیوں میں گزرتا ہے جیسے کام کی فکر، ہمارے معاشرے کے حالات، ہماری صحت، ہمارے بچوں کی تعلیم اور ان کے بہتر مستقبل کے بارے میں خدشات وغیرہ۔ چاہے ہمارا افسر یا حاکم ہمارے دفتری ساتھیوں کو ہم پر فوقیت دے رہا ہو یا چاہے ہمارا شریکِ حیات بے ڈھنگے طریقے سے پیسہ خرچ کر رہا ہو، ہم روز بروز بحث و تکرار اور ناکامیوں میں اُلجھتے جارہے ہیں۔ اگر کبھی آپ بیٹھ کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ ہم اپنا کتنا زیادہ وقت اور توانائی شکوے شکایات کرنے میں ضائع کر رہے ہیں تو آپ کو بہت تعجب ہوگا۔
ہم اکثر خود کو میسّر ہر نعمت کو اپنا حق سمجھ کرلیتے ہیں اور ذرا ایک لمحہ کو بھی نہیں سوچتے کہ اگر ہمارے پاس یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہمارا کیا حال ہوتا۔ بہت کارآمد ہوگا اگر ہم کبھی ان تمام چیزوں کو شمار کرنے بیٹھیں جو ہمارے پاس موجود ہیں اور جن کا ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے۔
زندگی بذاتِ خود بہت خوبصورت نعمت ہے۔ ہمارے اندر اور اردگرد کی تمام تکالیف اور پریشانیوں کے باوجود کوئی بھی موت کا سامنا کرنا پسند نہیں کرتا اور ابھی جبکہ ہم جیتے جاگتے اور اچھے حال میں ہیں، ہم شاید ہی ان مہربانیوں کو سوچتے ہیں جن کی بدولت ہم کام کرنے کے قابل صحت مند انسان ہیں۔
قرآن پاک احسان مندی اور شکرگزاری کو بڑی ایمانی صفات میں سے ایک کے طور پر بیان کرتا ہے۔ اللہ کی نعمتیں تو اتنی لاتعداد ہیں کہ اگر ہمارا ہر لمحہ بھی اس کا شکر ادا کرنے میں گزرتا تب بھی ہم اس کی مہربانیوں کا حق ادا نہ کر پاتے۔ لیکن ہم اس کے شکر کیلئے صِرف چند لمحات ہی صرف کرتے ہیں۔
’’اور وہ جو (بہت) شکر کرتا ہے وہ صِرف اپنے لئے کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک اللہ بے نیاز قابلِ تعریف ہے‘‘(لقمان 12:31)
تمام اچھی چیزوں کی تعریف کرنا باوجود اس کے کہ وہ کتنی ہی معمولی اور چھوٹی کیوں نہ لگیں اور ان کے لیے اللہ کا شکر ادا کرنا نہ صرف ہمیں خوش ہونے کے لیے روحانی اطمینان و قوت بخشتا ہے بلکہ ہمارے اردگرد بھی خوشی پھیلاتا ہے۔ خدا کو ہماری شکرگزاری کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں خوشی و طمانیت نصیب ہوسکے۔ اگر شکر ادا نہ کیا جائے تو ہماری روح پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور امن و سکون پانا دشوار ہوجاتا ہے۔ ہم اکثر اپنے پاس موجود نعمتوں کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور ایک لمحہ کو نہیں سوچتے کہ اگر یہ سب نعمتیں ہم سے واپس لے لی جائیں تو کیسی بڑی محرومی ہوگی۔
ہمارے حواس، ہماری ذہانت و تعلیم، ہمارا ہنر و قابلیت، ہمارے والدین کی محبت، ہمارے گرد پھیلی اس دنیا کا سحر و خوبصورتی، اچھے کھانوں، موسیقی و آرٹ وغیرہ سے لطف اٹھانے کی ودیعت کردہ صلاحیت۔۔۔ یہ ایک لامتناہی فہرست ہے جس کا شمار ممکن ہی نہیں اور یہ سب ہمیں ہماری ذاتی کوششوں سے حاصل نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں ہم سب کی زندگیوں میں عطا کی ہیں۔
’’اور اس نے تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دِل بنائے اور تم بہت کم (لوگ) ہو جو (اس کا) شکر کرتے ہو۔‘‘(السجدہ 9:32)
یہاں تک کہ جب کوئی اچھے حال میں ہوتا ہے تو تھوڑا بہت شکر ادا کرلیتا ہے، جیسے ہی ذرا مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو شکوے شکایات اور اپنی بدقسمتی کا رونا شروع کر دیتا ہے۔ تب ہم ان تمام مہربانیوں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو ہمیں کچھ وقت پہلے میسّر تھیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ جو اسے یاد رکھے گا، اللہ اس کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
انسانوں کی آزمائش و امتحان اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ مشکلات میں مبتلا ہوں اور پھر اس حال میں بھی وہ شکرگزاری کا مظاہرہ کریں، جب وہ یہ یاد رکھ سکیں کہ اللہ پہلے ان پر کتنا زیادہ مہربان رہا ہے اور آئندہ کے لیے بھی اسی پر اعتماد رکھیں۔
اللہ کی رضا و قرب پانے کے لیے انسان کو ایسی زندگی گزارنی چاہیے کہ وہ ہمیشہ مثبت رویہ کا اظہار کرے، کسی بھی حال میں ہو، اپنے خالق کا شکر ادا کرتا رہے اور اپنے حالات کی بہتری کیلئے کوشش کرتا رہے۔ شکرگزاری یا شکرانہ ایک ایسی صفت ہے کہ ساتھی انسانوں سے بھی اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ روزانہ بہت سے لوگ کئی طریقوں سے ہماری چھوٹی بڑی مدد کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی بہت غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے کہ ہم ان سب کا شکریہ ادا کرنے کیلئے وقت نکالیں۔
دوسروں کا شکریہ ادا کرنا دراصل اللہ کا شکر ادا کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے:۔ حدیث ہے:
’’وہ شخص اللہ کا شکرگزار نہیں بنتا، جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔‘‘ (سنن ابی داؤد 4811)
اللہ کی شکرگزاری اور اس پر ایمان دراصل ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ اگر ایک شخص اللہ اور اس کی رحمت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کو تمام قسم کے حالات میں اللہ کا شکرگزار بھی لازمی ہونا چاہیے، جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام تھے حالانکہ انہیں بدترین جسمانی درد و تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
اگر آپ اللہ کے شکرگزار ہیں اور اس کی رحمدلی پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کو قدرتی طور پر اس کا اجر بھی لازماً مل جائے گا۔ سورۃ رحمان میں اللہ کی چند نعمتوں کا بیان کرتے ہوئے بڑے خوبصورت انداز میں اس کو ان الفاظ میں سمویا گیا ہے۔
’’اور تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ (الرحمن 13:55)
(نوٹ:یہ آرٹیکل روزنامہ ڈان میں 30 جون 2017 کو شائع ہوا تھا)