شکوہ کے بجائے شکر ۔ ابویحییٰ
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر گھڑی اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں جیتا ہے۔ ہاتھ پاؤں جیسے اعضا، دیکھنے سننے جیسی قوتیں، ذہن و زبان جیسی صلاحیتیں، مال و اولاد جیسی نعمتیں، میاں بیوی جیسے رشتے، یہ سب وہ کرم نوازیاں ہیں جو ساری زندگی انسان کو بلا استحقاق ملتی رہتی ہیں، مگر انسانوں میں سے شاذ ہی ہوں گے جو ان نعمتوں پر دل و جان کی گہرائی سے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوں۔
ہاں ان میں سے کوئی نعمت اگر انسان سے چھن جائے؛ کسی قریبی رشتے دارکی موت ہو جائے، ہاتھ پاؤں یا سماعت و بصارت وغیرہ چھن جائے، جان و مال کا کوئی نقصان ہو جائے تو انسان کی دنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔ صدمے کی شدت سے انسان بے حال ہو جاتے ہیں۔ اکثر لوگ ایسے میں شکوہ اور شکایت شروع کر دیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان میں سے کوئی نعمت ان کا حق نہیں تھی، بلکہ یہ رب کریم کی مہربانی تھی جو اس نے اپنی عنایت سے عطا کی تو انسان نے شکر نہیں کیا اور اپنی حکمت سے واپس لی تو انسان نے صبر نہیں کیا۔
انسان کو اگر حقیقت کا ادراک ہو جائے تو وہ مصیبت آنے سے پہلے سراپا شکر بن کر زندگی گزارے۔ جتنی تڑپ سے لوگ مصیبت پر روتے ہیں وہ اتنی ہی شدت سے نعمت چھننے سے پہلے اس کا شکر ادا کریں گے۔ وہ اپنے ہاتھ پاؤں، سماعت وبصارت، دل و دماغ، مال و اولاد اور میاں بیوی جیسے رشتے کے دیے جانے پر صبح و شام رب کی کبریائی اور حمد بیان کریں گے۔ وہ لمحہ لمحہ اس کی شکر گزاری کریں گے۔
شکوے کے بجائے شکر کرنے والے یہی وہ لوگ ہیں جن کی نعمتوں میں اللہ تعالیٰ برکت دیتے ہیں اور دنیا میں محرومی سے زیادہ انہیں عطا و بخشش الٰہی سے واسطہ پڑتا ہے۔