Take a fresh look at your lifestyle.

شیعہ سنی جھگڑے کا حل ۔ ابو یحیی

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کئی جہتیں ہیں۔ ان میں سے ایک اہم جہت شیعہ سنی جھگڑے کے پس منظر میں ہونے والی قتل و غارت گری ہے۔ چنانچہ آئے دن اس حوالے سے کوئی نہ کوئی واردات ہوتی رہتی ہے اور عوام الناس کے ساتھ اہل علم بھی اس کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔خاص کر محرم کے مہینے میں تو اس حوالے سے خوف و دہشت کی ایک فضا پیدا ہوجاتی ہے کہ نجانے اب کیا ہوگا۔ اس حوالے سے کیے جانے والے حفاظتی اقدامات کے نتیجے میں عملی طور پر بڑے شہروں کی زندگی معطل ہوجاتی ہے۔ برسہا برس گزر گئے ہیں لیکن اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی بلکہ اب تو مڈل ایسٹ میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے یہ ایک بین االاقوامی نوعیت کا مسئلہ بنتا چلا جارہا ہے۔ اب دنیا مشرق وسطیٰ کو فلسطین کے مسئلے کے حوالے سے کم اور اس حوالے سے زیادہ جاننے لگی ہے۔

اس صورتحال میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ میں نے اس حوالے سے کئی برس قبل ایک مضمون میں اس مسئلے کا ایک حل تجویز کیا تھا۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا یہ واحد ممکنہ حل ہے۔ جب یہ مضمون شائع ہوا تو معروف شیعہ عالم علامہ ڈاکٹر محسن نقوی صاحب کو کچھ غلط فہمی لگی اور اس پر انھوں نے مجھے ایک ای میل لکھا۔ میں نے ایک خط میں اپنی بات کو مزید واضح کر کے بیان کردیا۔ مجھے امید تھی کہ یہ معقول بات مان لی جائے گی۔ یہ بات پرانی ہوگئی مگر پچھلے دنوں ڈاکٹر زبیر احمد صاحب جو کہ ٹی وی کے معروف اینکر ہیں، انھوں نے ایک ملاقات میں مجھے یہ بتایا کہ علامہ صاحب نے ملک کے ممتاز علماء کی ایک کانفرنس میں شیعہ سنی مسئلے کے حل کے لیے وہی تجویز پیش کی جو میں نے پیش کی تھی۔ ڈاکٹر زبیر صاحب نے مزید بتایا کہ اس پر ممتاز اہل حدیث عالم دین ابتسام الٰہی ظہیر نے یہ کہہ کر اس تجویز کی تائید کی کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ میرے والد کون تھے (یعنی علامہ احسان الٰہی ظہیر جن کی زندگی کا بڑا حصہ اہل تشیعہ حضرات کے نقطہ نظر کے خلاف جدوجہد میں گزرا اور 1988 میں ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے ایک بم دھماکے میں ان کی رحلت ہوئی) مگر اس کے باوجود میں اس تجویز کی تائید کرتا ہوں۔ بدقسمتی سے بعض دیگر اہل علم کی تائید نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ تاہم اگر ایک بات معقول ہے تو اسے سامنے آنا چاہیے تاکہ اس مسئلے کے حل کی سمت کوئی قدم تو بڑھے۔ ورنہ یہ آگے نجانے کتنے گھر اور اجاڑے گا اور کتنے معصوم لوگ اور اہل علم اس کا نشانہ بنیں گے۔

میں اس تجویز کا خلاصہ پیش کر دیتا ہوں اور پھر اس کے بعد تفصیل کے لیے اپنا مضمون اور پھر علامہ محسن کو لکھا گیا اپنا ای میل بھی نقل کردوں گا۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس حوالے سے بنائے فساد دو چیزیں بن رہی ہیں۔ ایک اہل تشیعہ حضرات کی طرف سے اور ایک اہل سنت کی طرف سے۔ اہل تشیعہ کی طرف سے صحابہ کرام پر کیا جانے والا سب و شتم جسے اصطلاحاً تبرا کہا جاتا ہے ایک خوفناک ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ چنانچہ اہل تشیعہ علما کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اپنے نقطہ نظر کی اساس تبرّائی سوچ کے بجائے توّلائی سوچ پر رکھیں گے۔ یعنی صحابہ کرام سے نفرت کے بجائے اہل بیت کی محبت کی بنیاد پر اپنے لوگوں کی تربیت کریں۔

جبکہ دوسری طرف کے علما کو تکفیری سوچ کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ اپنے لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ کسی کے عقیدے کی بنیاد پر اسے کافر قرار دے کر قتل کرنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آزمائش کے اصول پر پیدا کی ہے اور لوگوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جو چاہیں عقیدہ اختیار کریں۔ یہ اللہ کا ہی حق ہے کہ وہ چاہے تو کسی کو اس کے غلط عقیدے کی بنیاد پر سزا دے۔ یہ دروازہ ختم نبوت کے بعد بند ہوچکا ہے۔ اب یہ حق کسی صورت کسی انسان کو نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی دوسرے فرد کے ایمان اور کفر کا فیصلہ کرے اور اس بنیاد پر قتل کردے۔ یہ بدترین ظلم اور سرکشی ہے۔

اسلام میں اگر کسی جرم پر سزائے موت دی گئی ہے تو اس کو نافذ کرنے کا حق بھی صرف اور صرف ریاست کے پاس ہے۔ عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چلتا ہے۔ ملزم پر جرم ثابت کیا جاتا ہے۔ ملزم کو صفائی کا مکمل موقع دیا جاتا ہے۔ اسلام میں اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ خدائی فوجداروں کا کوئی گروہ کسی کے عقیدے کی بنیاد پر اس کے قتل کا فیصلہ کرلے اور اس کی جان، مال، آبرو کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچائے۔ جب دونوں طرف سے یہ بات بار بار اپنے لوگوں کے سامنے رکھی جائے گی تو اختلاف ختم ہو نہ ہو فساد ضرور ختم ہوجائے گا۔ یہی اصل مطلوب ہے۔ رہا نقطہ نظر کا اختلاف تو علمی سطح پر یہ گفتگو جاری رہنی چاہیے۔ اصل فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ خود کردیں گے۔ اس تمہید کے باب میں وہ مضمون آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں جو میں نے 2007 میں لکھا تھا۔ یہ مضمون جو ’’نئی امریکی سازش یا پرانا مسلم تنازعہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، درج ذیل ہے۔

نئی امریکی سازش یا پرانا مسلم تنازعہ
آج کل ہمارے ہاں ایک نئی امریکی سازش کا بڑا تذکرہ ہے۔ یہ سازش مشہور امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے اس نظریے پر مبنی قرار دی جارہی ہے جس میں مشرق وسطیٰ کو سنی اور شیعہ بلاکوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس نظریے کے مطابق ایرانی قیادت میں عراق، بحرین، لبنان اور شام پر مشتمل ایک شیعہ بلاک ہونا چاہیے۔ جبکہ اس کے بالمقابل سنی بلاک سعودی عرب کی قیادت میں وجود میں آئے گا۔

نظریہ سازش کے علمبرداروں کے نزدیک اس منصوبے پر عملدرآمد سے امریکہ اور اسرائیل کو متعدد فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک یہ کہ مسلم دنیا جو اسرائیل کی مخالفت میں یکسو تھی، آپس کے تنازعات میں الجھ جائے گی۔ خاص کر عرب دنیا کی توجہ اپنے بدترین حریف اسرائیل کے بجائے، ایٹم بم سے مسلح شیعہ خطرے کی طرف ہوجائے گی۔ پھر اس خطرے کی بنا پر ایران کو ایٹم بم کے حصول سے روکنے کی جو کوششیں امریکہ اور مغربی ممالک کر رہے ہیں، انہیں عرب اقوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوجائے گی۔ تیسرے اسلامی انتہا پسند وں کا رخ جو اس وقت امریکہ کی طرف ہے، وہ اس نئے تنازع کی طرف ہوجائے گا۔ شیعہ انتہا پسند اور سنی انتہا پسند دونوں امریکہ اور اسرائیل کو چھوڑ کر آپس میں سر ٹکرانا شروع کردیں گے۔ عراق میں جاری شیعہ سنی حملے پورے عالم اسلام کی جنگ بن جائیں گے۔ خاص کر پاکستان میں جہاں شیعہ بڑی تعداد میں موجود ہیں، شیعہ سنی فسادات کی لہر اس طاقتور ملک کو کمزور کرنے میں بہت معاون ثابت ہوگی۔ پھر یہ بات بھی لازمی ہے کہ ایران ان فسادات میں پاکستانی معاملات میں مداخلت کرے گا، اس لیے پاکستان سے اس کے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ یوں ایران بیک وقت دو خطرات میں گھر جائے گا، جس کے ایک طرف عرب دنیا ہوگی اور دوسری طرف ایٹمی پاکستان۔ چنانچہ اس کی توجہ اسرائیل سے ہٹ جائے گی۔ ان تمام حالات میں امریکہ نہ صرف باعزت طور پر عراق سے نکل چکا ہوگا، بلکہ اسے مسلم انتہا پسندوں کے خطرے سے نجات مل جائے گی، جو آپس ہی میں لڑ مر کر ختم ہوجائیں گے۔ اسی طرح اسرائیل کو بھی عرب اور ایران خطرے سے نجات مل جائے گی اور اس کے مقابلے پر تنہا فلسطینی رہ جائیں گے۔ جن پر اپنی مرضی کا کوئی بھی حل مسلط کیا جاسکتا ہے۔

رینڈ کارپوریشن کی اس تھیوری اور اس مبینہ سازش کے بارے میں کچھ دیر کے لیے فرض کرلیا جائے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے، تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عالم اسلام کے لیے آنے والے دنوں میں کتنے سنگین مسائل پیدا ہونے والے ہیں۔ تاہم غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس چیز کو ہم لوگ امریکی سازش قرار دے رہے ہیں کیا وہ واقعی کوئی امریکی سازش ہے یا ہماری اپنی ہی کوئی کمزوری ہے، جس نے صدیوں مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے شیعہ سنی تقسیم کے بہت سے نقصانات دیکھ چکے ہیں۔ موجودہ دور میں انتہا پسندی کے رجحانات نے اس تقسیم کی شدت کو مزید ہوادی ہے۔ خاص کر اختلافی نقطہ نظر رکھنے والوں کو کافر اور واجب القتل قرار دینے کی روش نے صورتحال کی سنگینی کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ پھر جدید ذرائع ابلاغ کی وجہ سے دوسرے نقطہ نظر کی محترم شخصیات کے بارے میں منفی نوعیت کی تقاریر اور تحریروں کا عام ہوجانا بھی معاملے کو سنگین بنا دیتا ہے۔

ہمیں اگر کسی مبینہ ’امریکی سازش‘ کا توڑ کرنا ہے تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ہر جگہ امریکہ کو برا بھلا کہتے رہیں۔ بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی تعمیر کریں اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً شیعہ سنی اختلاف کے نقصانات سے بچنے کے لیے ہمیں یہودیوں اور مسیحیوں سے سبق لینا چاہیے۔ دور جدید میں مسیحیت کے مختلف فرقوں اور ان سے بڑھ کر یہود یوں اور مسیحیوں نے اپنے اپنے اختلافات کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔ حالانکہ ان کی تاریخ میں پیدا ہونے والے اختلافات کہیں زیادہ سنگین نوعیت کے تھے۔

مسیحی جس ہستی کو، معاذ اللہ ،خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں، یہودی اس ہستی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ ہستی ایک جادوگر کی تھی۔ مگر اب دونوں نے اپنا نقطہ نظر بدل لیا ہے۔ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ جبکہ مسیحی لیڈر شپ یہودیوں کے بجائے، رومی حکومت کو اس عمل کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے، جس نے (ان کے خیال کے مطابق) مسیح کو صلیب دی تھی۔

مسلمانوں کے لیے بھی اپنے اختلافات کو ختم کرنے کا راستہ یہ نہیں کہ شیعہ سنی اتحاد کی باتیں کی جائیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ چند چیزیں مان لی جائیں۔ ایک یہ کہ شیعہ سنی اختلافات کو بس ایک علمی بحث تک محدود رکھا جائے اور کفر و قتل کے فتوے دینے بند کر دینے چاہییں۔اس معاملے میں تمام لوگوں کی تربیت اس طرح کی جائے کہ تحمل اور رواداری کا جذبہ پیدا ہو۔ دوسرے صحابہ کرام اور امہات المومنین کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس سے لوگوں کے جذبات برانگیختہ ہوں۔ اس معاملے میں شیعہ لیڈر شپ کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے کیونکہ ان کی مذہبی قیادت نہ صرف بہت منظم ہے بلکہ یہ مسئلہ بنیادی طور پر ان ہی کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ شیعہ حضرات میں سے وہ لوگ آگے بڑھیں جو تبرائی (صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے کا طریقہ) کے بجائے تولائی (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے خاندان سے محبت کا طریقہ) فکر کے حامی ہوں۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں دونوں فرقوں کے اختلافات جذباتی کے بجائے علمی نوعیت کے رہ جائیں گے۔ اور اس طرح اختلافات تو جب تک دنیا قائم ہے، باقی رہیں گے۔ ان سے دلوں میں نفرت نہیں پیدا ہوگی۔

باقی جہاں تک امریکہ اور اس کی مبینہ سازشوں کا تعلق ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں ہر سپر پاور اپنے معاملات اسی اصول پر چلاتی ہے۔ یعنی دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں کو دور کریں۔ یہ امریکہ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ہماری کمزوریوں سے فائدہ نہ اٹھائے۔

میرا خط
میرے اس ای میل کے جواب میں علامہ محسن نقوی نے مجھے انگریزی میں ایک خط لکھا۔ نجانے انھیں یہ غلط فہمی کیسے ہوگئی کہ میں نے اس مسئلے کی ساری ذمہ داری اہل تشیعہ پر ڈال دی۔ اسی کی وضاحت میں میں نے ان کو درج ذیل خط لکھا تھا۔

میر ے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ علامہ محسن نقوی جیسے عالم وفاضل شخص نے میرے مضمون پر اظہار کیا۔ اپنے مضمون میں انہوں نے تفصیلی طور پر اپنا نقطہ نظر پیش فرمایا ہے۔ مجھے مزید خوشی ہوتی اگر علامہ موصوف میری کسی بات پر نقد کرتے، مگر بدقسمتی سے انہوں نے میرے پورے مضمون کے جواب میں بمشکل ایک آدھ جملہ ہی لکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو کچھ میری تحریر کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے مجھ پر اس کا جواب دینے ہی کی ذمہ داری ہے اور وہی میں کرنے کی کوشش کروں گا۔ ہوسکتا ہے کہ اس عمل میں میری بات مزید واضح ہوجائے۔ لیکن اس سے قبل قارئین کی سہولت کے لیے میں وہ پیرا گراف نقل کر دیتا ہوں جس کا انہوں نے ترجمہ کیا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا:

’’مسلمانوں کے لیے بھی اپنے اختلافات کو ختم کرنے کا راستہ یہ نہیں کہ شیعہ سنی اتحاد کی باتیں کی جائیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ چند چیزیں مان لی جائیں۔ ایک یہ کہ شیعہ سنی اختلافات کو بس ایک علمی بحث تک محدود رکھا جائے اور کفر و قتل کے فتوے دینے بند کر دینے چاہییں۔ اس معاملے میں تمام لوگوں کی تربیت اس طرح کی جائے کہ تحمل اور رواداری کا جذبہ پیدا ہو۔ دوسرے صحابہ کرام اور امہات المومنین کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس سے لوگوں کے جذبات برانگیختہ ہوں۔ اس معاملے میں شیعہ لیڈر شپ کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے کیونکہ ان کی مذہبی قیادت نہ صرف بہت منظم ہے بلکہ یہ مسئلہ بنیادی طور پر ان ہی کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘

اس پیرا گراف میں دو باتیں کہی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ قتل و تکفیر کے فتوے بند ہونے چاہییں۔ دوسرے یہ کہ صحابہ کرامؓ اور امہات المومنینؓ کے بارے میں منفی اندازِ گفتگو ختم ہونا چاہیے۔

اب دیکھیے کہ اس کے جواب میں علامہ موصوف کیا فرماتے ہیں:

"Obviously, the passage is written by a well-meaning Sunni. And the first thing he has done is BLAME THE OTHER SIDE.”

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ صاف ظاہر ہے کہ یہ بات ایک سنی کی طرف سے لکھی گئی ہے اور پہلا کام جو اس نے کیا وہ دوسرے پر الزام لگانا ہے۔ اس کے بعد علامہ نے پورا مضمون اس مفروضے پر لکھا ہے کہ میں نے اہل تشیع حضرات پر قتل و غارتگری کا الزام لگایا ہے اور اہل سنت کو اس سے بالکل بری قرار دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ حضرت علامہ نے یہ بات کہاں سے اخذ کرلی۔ میں نے ظاہر ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ البتہ جو بات میں نے کہی ہے اور جس پر حضرت علامہ نے ایک لفظ نہیں لکھا وہ صحابہ کرامؓ اور امہات المومنینؓ کے بارے میں جذبات برانگیختہ کر دینے والی گفتگو ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی کہ اگر علامہ صاحب میری اس بات کی تردید کرتے ہوئے یہ فرمائیں کہ یہ سب تمھارا وہم ہے۔ شیعہ حضرات تو ان محترم ہستیوں سے بڑی عقیدت و محبت کا تعلق رکھتے ہیں۔

بہرحال ہر پڑھا لکھا بلکہ اب تو بغیر پڑھا لکھا شخص بھی جانتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی۔ میرے نزدیک اس مسئلے کو حل کئے بغیر شیعہ سنی اتحاد کی باتیں کرنا ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر کبھی نہیں نکل سکتی اور نہ متشددانہ تصادم کو روکا جاسکتا ہے۔ کیا شیعہ حضرات کسی ایسے گروہ کو معاف کرسکتے ہیں جو سیدنا علیؓ اور حضرت فاطمہؓ اور ان کی اولاد کے بارے میں گستاخانہ کلام کرے۔ پھر اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے۔ اسی پس منظر میں یہودی مسیحی مسئلے کے حل سے رہنمائی لینے کا فارمولا میں نے پیش کیا تھا۔

علامہ صاحب نے اپنے طور پر اس مسئلے کا جو حل پیش کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:

"The basic instrument for bringing peace and harmony in a divided community is FOR EACH SIDE TO UNDERSTAND THE POINT-OF-VIEW OF THE OTHER SIDE.”

ایک تقسیم شدہ امت میں امن اور ہم آہنگی بحال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر گروہ دوسرے گروہ کے نقطہ نظر کو سمجھے.

یہ بات کہ ہر گروہ دوسرے گروہ کے نقطہ نظر کو سمجھے بڑی اہم ہے، مگر اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اصل مسئلے کو سمجھا جائے۔ شیعہ سنی اختلاف کو فساد اور امت کی تباہی میں بدلنے والا عنصر عقیدہ اور نقطہ نظرکا اختلاف نہیں بلکہ بعض محترم ترین شخصیات کے خلاف اختیار کیا جانے والا لب و لہجہ ہے۔ اس کے بعد اب دونوں طرف کا نقطۂ نظر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ طرز عمل صرف ایک طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انہی کو کہا جائے کہ آپ کسی طرح اس چیز سے بچیں۔ اگر شیعہ حضرات یہ چھوڑ دیں تو پھر کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ جلتی پر پنکھا جھلے۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ پنکھے کی ہوا سے نہیں بلکہ اس پٹرول سے پیدا ہوتا ہے جو صرف ایک فریق کے پاس ہے۔

ہوسکتا ہے کہ علامہ صاحب یہ فرمائیں کہ شیعہ حضرات کے پاس اپنے اس طرز عمل کا علمی اور تاریخی جواز ہے۔ ایسے میں ہم ان سے یہ دریافت کریں گے کہ کوئی گروہ اگر سیدنا علیؓ کے خلاف کسی علمی اور تاریخی دلیل کی بنیاد پر یہ لب و لہجہ اختیار کرلے تو کیا وہ اس جواز کو سند قبولیت عطا فرما کر آنجنابؓ کی بارگاہ میں کسی گستاخی کو ایک لمحے کے لیے بھی قبول کرسکتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر وہ بتائیں کہ انہیں میرے دیے ہوئے حل کے سوا کون سا دوسرا قابل عمل حل نظر آتا ہے جس میں کسی شیعہ کو کافر قرار دینے یا مارنے کی بات نہیں کی جارہی بلکہ اپنی بنیاد صحابہ کرامؓ کی نفرت کے بجائے آل فاطمہؓ کی محبت کی بنیاد پر استوار کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔

امید ہے کہ حضرت علامہ میری معروضات پر ایک’ ’مسلمان‘‘ بن کر غور فرمائیں گے۔ یہ آخری بات میں نے اس لیے کہی ہے کہ انہوں نے مجھے ایک well-meaning سنی قرار دیا ہے۔ میرے well-meaning ہونے(یعنی وہ شخص جو مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں مسئلہ اور خراب کر دے) کا فیصلہ تو قارئین بہتر طور پر کرسکتے ہیں، البتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مسلمان امتی ہونے کے علاوہ اپنی کوئی اور شناخت نہ روزِقیامت چاہتا ہوں نہ اس دنیا میں۔ اور اس حیثیت میں میرے سامنے صرف قرآن کی یہ آیت ہے۔

اے ایمان والوں!عدل کے علم بردار بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے۔ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو۔ یہی تقویٰ سے قریب ترہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو بے شک اللہ اس سے باخبر ہے۔ (مائدہ8:5)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان اعمال کی توفیق دے جس سے ہم اس کی رضا حاصل کریں۔

والسلام