شیطان اور انسان – پروفیسر محمد عقیل
شیطان اور انسان کی جنگ کی ابتدا آدم کی تخلیق سے پہلے ہی ہوچکی تھی جب اس نے حسد، تکبر اور انا کے باعث خدا کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی پر بس نہیں، اس نے خدا کے ساتھ دوبدو بدتمیزی شروع کر دی۔ کبھی اس نے اپنی گمراہی کا الزام خدا پر ہی لگا دیا تو کبھی اپنی فضیلت اس خدا کے سامنے نص سے ثابت کرنے لگا جس کا ہر فرمان نص ہے۔ جب خدا نے اس سے استفسار کیا تو بجائے اس کے کہ اپنی غلطی مانتا، وہ خدا ہی کو چیلنج دے بیٹھا۔ اس نے مہلت مانگی اور کہا "میں انسان کے دائیں، بائیں، آگے، پیچھے، تہذیب، تمدن، آرٹ، کلچر، زبان، بیان غرض ہر جگہ سے آؤں گا اور اس کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا تاکہ آگ مٹی سے برتر ثابت ہوجائے۔”
وہ دن ہے اور آج کا دن، شیطان نے انسان کو ہمہ وقت اپنا دشمن جانا اور گردانا ہے اور وہ ایک لمحے کے لئے اس دشمنی کو نہیں بھولا۔ لیکن آج کا انسان اس دشمنی کو نہ صرف بھول گیا بلکہ شیطان کو اپنا خیر خواہ سمجھنے لگا ہے۔ حالانکہ قرآن میں جگہ جگہ شیطان کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ یہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔ یہ انسان کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھ سکتا، یہ اپنے حسد کی آگ میں پہلے بھی جلتا تھا اور آج بھی انگاروں پر لوٹتا ہے۔
انسان کا شیطان کو دشمن نہ سمجھنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شیطان کبھی سامنے سے وار نہیں کرتا بلکہ چھپ کر کارروائی کرتا ہے۔ اس کے دھوکا دینے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ دین اور دنیا الگ الگ میدان ہیں اور انسان کو دینی امور میں تو شیطان سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے لیکن دنیوی امور میں شیطان کا کیا لینا دینا۔
سوال یہ ہے کہ شیطان اورانسان کی دشمنی کیا صرف دینی معاملات میں ہے یا دنیاوی امور بھی اس میں شامل ہیں؟ ایک حاسد کا اصل مشن محسود کو ایذا میں دیکھ کر خوش ہونا ہوتا ہے اس سے قطع نظر کہ یہ دکھ کس معاملے میں مل رہا ہے۔ لہٰذا شیطان کا مشن آخرت کے معاملات تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہ دنیا میں بھی انسان کو تباہ و برباد اور بے چارگی کی حالت میں دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کے جذبہ حسد کو تسکین ملے۔
چنانچہ یہ سمجھنا غلط فہمی ہوگی کہ شیطان صرف مذہبی معاملات ہی میں دراندازی کرتا یا کرسکتا ہے۔ وہ عبادات میں تو انسان کو گمراہ کرتا ہی ہے، اسی کے ساتھ ساتھ معاشرت، اخلاقیات، معیشت، معاملات غرض ہر اس راستے سے وار کرتا ہے جہاں سے انسان کا گزر ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بھی بہت سی تکالیف کا سبب شیطان کی دراندازی ہی ہوتی ہے۔ میاں بیوی میں فساد، والدین اور اولاد میں چپلقش، رشتے داروں میں دوریاں اور بزنس میں باہمی رنجشیں درحقیقت شیطان ہی کی دراندازی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری، معاشی استحصال، منشیات اور دیگر جرائم کے پیچھے بھی شیطان ہی کا ہاتھ ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود اللہ نے شیطان کو صرف وسوسہ انگیزی کا اختیار دیا ہے۔ اس وسوسہ انگیزی میں شیطان نے جو گناہ کیا وہ اس کا انجام دیکھ لے گا۔ لیکن کسی بھی گناہ کو کرنے کا اصل ذمہ دار شیطان نہیں انسان ہی ہے۔ لہٰذا کوئی بھی انسان اپنے کئے کا خود ذمہ دار ہے۔ شیطان اور انسان کا معاملہ یوں ہے کہ کسی شخص کو اس کا دوست زنا کے لئے اکساتا اور اس کے لئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسرا دوست اپنی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ اب عدالت میں اگر مقدمہ چلے تو پہلا دوست تو معاونت کے الزام میں پھنسے گا لیکن اصل مقدمہ دوسرے دوست پر چلے گا اور وہ یہ کہہ کر بری نہیں ہوسکتا کہ وہ مجبور تھا کیونکہ اسے ورغلایا گیا تھا۔
ان انفرادی سطح کے وسوسوں کے علاوہ شیطان لانگ ٹرم پلاننگ بھی کرتا ہے جو بعض اوقات سینکڑوں سالوں پر محیط ہوتی ہے۔ وہ اس پلاننگ میں دو کام کرتا ہے۔ ایک تو وہ جنوں اور انسانوں ہی میں سے اپنے ہم خیال لوگ تیار کرتا ہے جو اس کا مشن آگے بڑھاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ٹیکنالوجی، تہذیب، تمدن، لٹریچر اور آرٹ وغیرہ جیسے نفع بخش امور میں دراندازی کر کے اسے انسان کو بھٹکانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طورپر انٹرنیٹ بذات خود ایک نعمت ہے۔ لیکن وہ اس میں عریانی، بے ہنگمی اور دنیا کی چکاچوند کو نمایاں کر کے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔
کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے شیطان کو اپنا دشمن سمجھیں، اس کی چالوں کو پہچانیں، اس کی اکساہٹوں سے ہوشیار رہیں۔ اگلے مرحلے میں ہم اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ اس کے بعد وہ عملی اقدام کریں جس سے شیطان کی چالیں ناکام ہوجائیں اور ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوجائیں۔