شام کا پیغام ۔ ابویحییٰ
یہ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی۔ میں مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا تو سرد ہوا کے جھونکوں نے میرا استقبال کیا۔ میں نے سر اٹھایا۔ آسمان پر ایک ایسا منظر تھا جس کے حسن نے مجھے مسحور کر کے رکھ دیا۔ سردیوں کی اس گلابی شام میں آسمان کے مغربی افق پر گویا شعلے بھڑک رہے تھے۔ سورج تو ڈوب چکا تھا مگر اپنے پیچھے شفق کی وہ لالی چھوڑ گیا، جس نے نیلے آسمان کو دلہن کے سرخ لباس کی طرح سجا دیا تھا۔
سرد ہوا میں انگاروں کی طرح دہکتے آسمان کا یہ منظر اتنا حسین تھا کہ پوری کائنات اس کے مشاہدے میں مصروف تھی۔ پرندے اس آسمانی دلہن کی بارات کا دیدار کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ فضا میں بکھرے بادلوں کو کوئی جلدی نہ تھی۔ وہ اپنی جگہ ٹھہر کر اس حسین منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ بلند قامت درخت بھی بادلوں کی دیکھا دیکھی، حسن فطرت کے اس نظارہ سے محظوظ ہونے لگے۔ حد تو یہ ہے کہ شب کی سیاہی بھی اس منظر کو دیکھنے نکل آئی تھی۔
میں نے دیکھا کہ فطرت کی ہر شے اس بے حد حسین منظر کو دیکھ کر خالق کائنات کی حمدو تسبیح کرنے لگی ہے۔ مگر جس ہستی کوزمین کا بادشاہ بنایا گیا تھا، وہ بالکل بے پروا اپنے دھندوں میں لگا تھا۔ شاپنگ سنٹر سے نکلتے، گاڑیوں میں بیٹھتے، سڑکوں پر چلتے یہ لوگ سب سے بڑھ کر اس کے اہل تھے کہ یہ منظر دیکھتے اور خدا کی حمد اور تعریف کے نغمے گاتے۔ مگر آہ یہ انسان! اس کے پاس ہر چیز کا وقت ہے۔ خدا کی صناعی کو دیکھ کر اس کی ثنا اور تعریف کا وقت نہیں ہے۔
وہ جو اپنی ذات میں محمود ہے اس سے بالکل بے نیاز ہے کہ اس کی حمد کی جائے۔ وہ تو اس جیسے نہ جانے کتنے جلوے صبح و شام ویرانوں میں بکھیرتا رہتا ہے۔ جبریل و اسرافیل جس کی حمد کرتے ہوں، اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ جن و انس میں سے کون اس کی شکر گزاری کرتا ہے اور کون نہیں۔
افق پر سیاہی بڑھتی جا رہی تھی اور شام کی سرخی، گزرتی عمر کی طرح تیزی سے ڈھل رہی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ یہ ڈوبتی شام ایک پیغام دے رہی ہے۔ وقت کم ہے۔ خدا کی حمد کر کے، اس شام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے نام کرلو۔ خدا کی بادشاہی قائم ہونے کو ہے۔ جنت دلہن کی طرح سجائی جا رہی ہے۔ اُس کی ہر شام، اِس شام سے زیادہ حسین و دل نشین ہوگی۔ اسے مانگ لو۔ خدا اپنی حمد کے ساتھ کی گئی دعا رد نہیں کرتا۔ اس سے فردوس کی ابدی بادشاہی مانگ لو۔ جو جبریل و اسرافیل کو نہیں مل سکتا، وہ مانگ لو۔
اس شام کا یہ پیغام، باقی انسانوں کا مجھ پر قرض تھا، جو یہ تحریر لکھ کر میں نے اتار دیا۔