شب قدر کو پانے والے ۔ ابویحییٰ
شب قدر عظیم فیصلوں کی رات ہے۔ قران مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پرحکمت فیصلوں کو نفاذ کے لیے فرشتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ اسلام اور دیگر فرشتے ان فیصلوں کو لے کر زمین پر اترتے ہیں۔ ان فیصلوں میں سے ایک عظیم فیصلے کی مثال نزول قرآن کی ہے جو انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے۔ نزول قرآن کے بعد اگلے ہزار مہینوں میں وہ تین عظیم نسلیں اٹھیں جنھوں نے انسانی تاریخ کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ یہ رات طلوع فجر تک سلامتی کی رات ہے۔
شب قدر کی اس حیثیت کو جاننے کے بعد انسان جب اس رات میں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو دراصل اس حقیقت کو پالیتا ہے کہ یہ نظام کائنات ایک عظیم ہستی چلا رہی ہے جو قادر مطلق اور کریم مطلق ہے۔ یہ کائنات کسی بخت و اتفاق کا نتیجہ نہیں جسے حوادث کی زنجیر کسی نامعلوم منزل کی طرف کھینچے چلی جارہی ہے۔ دہکتے ستاروں اور یخ بستہ خلاؤں کا مجموعہ یہ کائنات اور اس میں اعتدال و توازن کا مجموعہ یہ زمین ایک خدائے بزرگ و برتر کی صناعی کا نمونہ ہے۔
وہ بنانے والا اسے بنا کر کہیں فارغ نہیں بیٹھا بلکہ عرش قدرت پر جلوہ گر ہو کر ہر لمحے اور ہر آن کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ ذرے ذرے پر اس کی نظر ہے اور ہماری زندگی کے روز و شب سب اس کے علم میں ہیں۔ ہماری زندگی کا مقصد اسے راضی کرنا ہے۔ تاکہ کل روز قیامت جب وہ قادر مطلق تخت عدالت پر جلوہ افروز ہو تو اس کا حتمی فیصلہ ہمارے بارے میں یہ ہو کہ میں نے آدم کے اس بیٹے یا اس بیٹی کو معاف کر دیا۔ میں نے اسے جہنم کے ہر عذاب سے بچا کر ختم نہ ہونے والی ابدی راحتوں میں جگہ دے دی۔ جس شخص نے شب قدر میں اس طرح خدائے قدیر کو دریافت کیا اسی نے شب قدر پالی۔