سکول کا طالب علم۔۔۔ مستقبل کیا ہے؟ خورشید ندیم
جدید تعلیم کے اداروں میں پڑھنے والے طالب علم کا مستقبل کیا ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟
تعلیم کے باب میں ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکی۔ صرف پنجاب میں پچاس فیصد طالب علم نجی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد، تعلیم اب صوبائی مسئلہ ہے۔ صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں، مرکزی حکومت نہیں۔ تاریخ یہی ہے کہ تعلیم کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ قوم کے بچوں کو نااہلی کے سپرد کر دیا گیا یا ان کے، جن کے لیے تعلیم جنسِ بازار سے زیادہ کچھ نہیں۔ میری مراد نجی شعبے سے ہے۔
جدید تعلیم کے ساتھ پہلا المیہ یہ ہوا کہ تربیت اس کا حصہ نہ بن سکی۔ اچھا انسان کیسے بنتا ہے؟ یہ سوال تعلیم کا کبھی مرکز نہیں بن سکا۔ قومی پالیسیاں ترتیب پاتی رہیں۔ ضیاء الحق صاحب کے دور میں تعلیم کی اسلامی تشکیل کے لیے ایک کمیشن بھی بنا جسے آئینی تحفظ حاصل تھا۔ کچھ عرصہ قائم رہنے کے بعد اس کا بجٹ ہی ختم کر دیا گیا۔ نہ بانس ہوگا نہ بانسری بجے گی۔ مذہب‘ جو ہمیشہ اخلاقیات کا ماخذ رہا، تعلیمی نظام کا رسمی حصہ ہی بن سکا۔ ایک لازمی مضمون‘ جسے طالب علم اس لیے پڑھتے ہیں کہ ان کی مجبوری ہے۔ یہ کبھی طالب علم کی شخصیت سازی سے متعلق نہیں ہوسکا۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جدید تعلیم کا نظام شخصیت سازی کے باب میں مکمل ناکام ہوچکا ہے۔
اس تعلیم کا دوسرا المیہ غیر معیاری ہونا ہے۔ جدید مضامین کی جو تعلیم دی جا رہی ہے، اس کے نتیجے میں معاشرے کو وہ ماہرین میسر نہ آسکے جو اس کی ضرورت تھے۔ اعلیٰ تعلیم کا معاملہ بطورِ خاص تشویش ناک ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں میں غور و فکر کی جو صلاحیت پیدا ہونی چاہیے تھی، وہ نہ ہوسکی۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر ساری دنیا جس تحقیقی معیار کو پیش نظر رکھتی ہے، وہ ہمارے ہاں موجود نہیں۔ میرے پاس بعض اوقات صحافت کے طالب علم آتے ہیں۔ انہیں کالم نگاری کے بارے میں تحقیق کرنا ہوتی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ کالم نگاری کی تاریخ سے واقف ہوتے ہیں‘ نہ کالم نگاروں سے۔ ان کے پاس وہ معلومات بھی نہیں ہوتیں جن سے عام قاری بھی باخبر ہوتا ہے۔ کچھ یہی معاملہ دیگر سماجی علوم کا بھی ہے۔
اس تعلیم کا تیسرا المیہ یہ ہے کہ اس کی کوئی سمت نہیں۔ ایک بھیڑ چال ہے جس کا یہ شکار ہوجاتی ہے۔ عطا الرحمن صاحب اعلی تعلیم کے ذمہ دار بنے تو سارا اصرار طبعی علوم پر تھا۔ سماجی علوم کے بارے میں یہ رائے بنی کہ یہ بے معنی ہیں۔ سماجی علوم کے بغیر تعلیم کھوکھلی ہوجاتی ہے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ وظائف طبعی علوم کے لیے خاص ہوگئے‘ جس کے نتیجے میں معاشرے کی اعلیٰ ذہانتیں انہی علوم کا رخ کرنے لگیں۔
اس تعلیم کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مادی تعمیر طالب علم کا واحد مقصدِ زندگی قرار پایا۔ وہ کسی مضمون کی تعلیم حاصل کرتے وقت صرف یہ پہلو پیش نظر رکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں اسے روزگار مل سکے گا یا نہیں۔ اس کی سوچ اسی دائرے میں گھومتی ہے۔ والدین بھی اسی زاویے سے سوچتے ہیں۔ طالب علموں کی باہمی گفتگو بھی اسی موضوع پر ہوتی ہے کہ کس شعبے میں روزگار کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس بات کی اہمیت اپنی جگہ مگر تعلیم اگر روزگار کے حصول کا واحد مقصد بن جائے تو پھر معاشرہ اخلاقی انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اقدار، روایت، آداب، ہر چیز غیرمتعلق ہوجاتی ہے۔
تعلیم جب ریاست کی ترجیحات میں شامل نہ رہی تو وہ اس بات سے بے نیاز ہوگئی کہ تعلیمی اداروں میں کیا ہو رہا ہے۔ بالخصوص نجی تعلیمی ادارے تو بالکل بھلا دیے گئے۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل کی اخلاقی شخصیت برباد ہوگئی۔ اب تو بے شمار رپورٹس آچکیں کہ کس طرح ان میں سے کچھ ادارے منشیات کا گڑھ بن چکے۔ آج اگر ایک طالب علم ان اداروں میں زیر تعلیم ہے تو وہ جانتا ہے کہ منشیات کی کتنی اقسام ہیں اور وہ کیسے استعمال کی جاتی ہیں۔ ہماری نسل کے لوگ تو اس سے بے خبر تھے۔ اگر ایک دو نشوں کے بارے میں علم تھا تو اس کا تعلق سماجی مشاہدے سے تھا۔ اس کا تو کوئی امکان نہیں تھا کہ تعلیمی ادارے میں اس کا چرچا ہو۔
اخلاقیات کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق حیا جیسی اقدار سے ہے۔ نجی تعلیم کے اکثر ادارے مخلوط ہیں۔ اختلاط اب کمرہ جماعت تک محدود نہیں، یہ ان مظاہر کو بھی محیط ہے جن کا تعلق حیا باختگی سے ہے۔ کسی گروہ کو یقینا یہ حق نہیں کہ اپنا تصورِ اخلاق بزور لوگوں پر نافذ کرے لیکن تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور حکومت کا تو یہ حق ہے کہ وہ سر عام ایسے مظاہر پر نظر رکھے جن کا تعلق ہمارے معاشرے کی مسلمہ اخلاقی روایات کی پامالی سے ہے۔ ہر معاشرے کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اخلاقی اور تہذیبی وجود کی حفاظت کرے، اس کے لیے وہ کوئی اقدام کرسکتا ہے۔ ریاست جب تعلیم سے غیرمتعلق ہوئی تو تعلیمی اداروں کے ماحول سے بھی بے خبر ہوگئی۔
جدید تعلیم سے صرفِ نظر کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ان میں سے کچھ ادارے بعض انتہا پسند مذہبی گروہوں کی آماجگاہ بن گئے۔ سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں دینی مدارس کے طالب علم اس طرح ملوث نہیں‘ جس طرح جدید تعلیمی اداروں کے بعض نوجوان ملوث ہیں۔ جب ریاست نظامِ تعلیم کے مقاصد متعین کرنے میں ناکام رہے تو یہ اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی نے جنم لیا اور غیر سرکاری اداروں میں بداخلاقی نے۔
یہ خبر خوش آئند ہے کہ ایچ ای سی نے اس سوال کو موضوع بنایا ہے کہ جامعات میں انتہا پسندی کیسے پھیل رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سوال کو نظامِ تعلیم کے ساتھ بحیثیت مجموعی جوڑنا چاہیے۔ ہمیں نظامِ تعلیم کی اصلاح کا ایک جامع پروگرام ترتیب دینا ہوگا‘ جس میں بنیادی سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک، پورے تعلیمی ڈھانچے کو ایک نظامِ اخلاق کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ اخلاقیات کو نصاب ہی نہیں، تعلیمی ماحول کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔ اگر ہم مذہبی رواداری کو شخصیت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے ہی مرحلے میں دیگر مذاہب کا احترام سکھایا جائے۔ اگر ہم حیا جیسی اقدار کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ بچپن ہی سے شہریوں کو اس بارے میں حساس بنایا جائے۔
آج مذہبی تعلیمی اداروں کی طرح جدید تعلیم کے اداروں کو بھی ریاستی نظم کے تابع کرنا ہوگا۔ کم از کم اس باب میں ضرور وحدتِ فکر ہو کہ یہ مدرسہ ہو یا پھر جدید تعلیم کا ادارہ، اچھا شہری بننا تعلیم کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ یہ سوال اس کے بعد تعلیم کا حصہ بنے کہ طالب علم کو ڈاکٹر بننا ہے یا عالم دین۔ جب تک ہم سب طالب علموں کو یکساں بنیادی تعلیم فراہم نہیں کرتے، ہمیں دونوں نظام ہائے تعلیم کے لیے ایک جیسا تعلیمی ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ جو تعلیم اخلاقیات سے صرفِ نظر کرتی ہے، وہ انسانی اوصاف سے عاری ربورٹس تیار کرتی ہے جو ڈاکٹر، انجینئر تو بن جاتے ہیں لیکن لازم نہیں کہ اچھے انسان بھی بنیں۔
ریاست اگر نئے بیانیے پر اتفاق کرے تو اس کے نفاذ کا آغاز نظامِ تعلیم کی اصلاح سے ہوگا۔ دیگر اقدامات ضمنی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا