سوال اٹھانے کا کلچر ۔ مجاہد خٹک
اب تک امریکہ نے 368 نوبل پرائز حاصل کیے ہیں، برطانیہ نے 132، جرمنی نے 107، فرانس 62، سویڈن 30، سوئٹزرلینڈ 26، جاپان 26، کینیڈا 23 اور روس نے 23 نوبل انعام حاصل کیے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمان ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں چند افراد ہی اس اعزاز کو حاصل کر پائے۔ اگر نوبل انعام کو آپ متنازعہ سمجھتے ہیں تو پھر ایسے سائنس دانوں کی فہرست بنا لیں جنہوں نے جدید دور میں نئے اور انقلابی قسم کے نظریات پیش کیے ہوں۔ اس میں کسی مسلمان کا نام بمشکل ہی آپائے گا۔ اسی طرح دور جدید کے اہم ترین فلسفی، تاریخ دان، ماہر معاشیات و عمرانیات اور نفسیات دانوں کے ناموں پر نگاہ دوڑائیں تو یہی منظر دکھائی دیتا ہے۔ پچھلی چند صدیوں سے علم کے ہر میدان میں مسلمانوں نے کوئی حصہ نہیں ڈالا۔
جب پونے دو ارب کے لگ بھگ آبادی میں سے چند سو بڑے دماغ پیدا نہ ہوپائیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں بہت بڑی گڑبڑ ہے۔ ایسے حالات میں لازم ہے کہ اپنی توانائیاں اغیار کی خامیاں تلاش کرنے کے بجائے اپنے محاسبے پر صرف کی جائیں۔ جن دانشوروں کی خورد بینی نگاہیں مغرب کی خامیاں تلاش کرنے میں لگی رہتی ہیں ان کی حیثیت نشہ آور ادویات کی طرح ہے، جن سے پورے معاشرے کو لمحاتی خمار تو مل جاتا ہے لیکن بیماری کا علاج نہیں ہو پاتا۔
جب صدیوں سے ایسا خوفناک جمود طاری ہو تو اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سوال اٹھانے کا کلچر پیدا کیا جائے۔ چاہے سماج کو سوال کتنا ہی غیر معقول لگے، اس کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے۔ جب لاکھوں ذہن ایک کرب کی حالت میں سوال پوچھیں گے تو پھر وہ جواب بھی ملنا شروع ہوجائیں گے جو ابھی تک ہم سے پوشیدہ ہیں۔ غیر معقول اور سطحی سوال کوئی نقصان نہیں دیتے۔ وہ ایک بلبلے کی طرح چند لمحات کے لیے فضا میں ابھرتے ہیں اور پھر مٹ جاتے ہیں۔ اگر سوالات پر شرطیں عائد کی جائیں گی تو پھر وہ کلچر پیدا نہیں ہوپائے گا جس سے تخلیقی روح بیدار ہوتی ہے۔