صحیح سبق ۔ مولانا وحید الدین خان
حضرت شفیق بلخی اور حضرت ابراہیم ادھم دونوں ہم زمانہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار شفیق بلخی اپنے دوست ابراہیم ادھم کے پاس آئے اور کہا کہ میں ایک تجارتی سفر پر جا رہا ہوں۔ سوچا کہ جانے سے پہلے آپ سے ملاقات کر لوں۔ کیوں کہ اندازہ ہے کہ سفر میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔
اس ملاقات کے چند دن بعد حضرت ابراہیم ادھم نے دیکھا کہ شفیق بلخی دوبارہ مسجد میں موجود ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ تم سفر سے اتنی جلدی کیسے لوٹ آئے؟ شفیق بلخی نے بتایا کہ میں تجارتی سفر پر روانہ ہوکر ایک جگہ پہنچا۔ وہ ایک غیر آباد جگہ تھی۔ میں نے وہاں پڑاؤ ڈالا۔ وہاں میں نے ایک چڑیا دیکھی جو اڑنے کی طاقت سے محروم تھی۔ مجھے اس کو دیکھ کر ترس آیا۔ میں نے سوچا کہ اس ویران جگہ پر یہ چڑیا اپنی خوراک کیسے پاتی ہوگی؟ میں اسی سوچ میں تھا کہ اتنے میں ایک اور چڑیا آئی۔ اس نے اپنی چونچ میں کوئی چیز دبا رکھی تھی۔ وہ معذور چڑیا کے پاس اتری تو اس کی چونچ کی چیز اس کے سامنے گر گئی۔ معذور چڑیا نے اس کو اٹھا کر کھا لیا۔ اس کے بعد آنے والی طاقتور چڑیا اڑ گئی۔
یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا سبحان اللہ! خدا جب ایک چڑیا کا رزق اس طرح اس کے پاس پہنچا سکتا ہے تو مجھ کو رزق کے لیے شہر در شہر پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے آگے جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور وہیں سے واپس چلا آیا۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم ادھم نے کہا کہ شفیق! تم نے اپاہج پرندے کی طرح بننا کیوں پسند کیا؟ تم نے یہ کیوں نہیں چاہا کہ تمہاری مثال اس پرندے کی سی ہو جو اپنے قوت بازو سے خود بھی کھاتا ہے اور اپنے دوسرے ہم جنسوں کو بھی کھلاتا ہے۔ شفیق بلخی نے یہ سنا تو ابراہیم ادھم کا ہاتھ چوم لیا اور کہا کہ ابو اسحاق! تم نے میری آنکھ کا پردہ ہٹا دیا۔ وہی بات صحیح ہے جو تم نے کہی۔
ایک ہی واقعہ ہے۔ اس سے ایک شخص نے بے ہمتی کا سبق لیا اور دوسرے شخص نے ہمت کا۔ اسی طرح ہر واقعہ میں بیک وقت دو پہلو موجود ہوتے ہیں۔ یہ آدمی کا اپنا امتحان ہے کہ وہ کسی واقعہ کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ایک زاویہ سے دیکھنے میں ایک چیز بری نظر آتی ہے دوسرے زاویہ سے دیکھنے میں وہی چیز اچھی بن جاتی ہے۔ ایک رخ سے دیکھنے میں ایک واقعہ میں منفی سبق ہوتا ہے اور دوسرے رخ سے دیکھنے میں مثبت سبق۔