سب سے اچھا موبائل کس کا؟ ۔ پروفیسر محمد عقیل
موبائل سیٹ آج کل کی دنیا میں سب سے زیادہ پرکشش شے بن چکا ہے۔ ہر شخص گردن جھکائے اسکرین پر انگلیاں پھیرتا نظر آتا ہے۔ سیل فون کی خواہش اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ بچے اپنا گردہ بیچ کر بھی اس نایاب نعمت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
سیل فون کے استعمال میں وہ کیا بات ہے کہ دنیا پاگل ہوچکی ہے؟ دراصل دنیا کی آسائشوں کا خلاصہ سیل فون میں موجود ہے۔ اس میں کمیونکیشن، انٹرٹینمنٹ، خودنمائی، ستائش کا حصول اور مذہبی تعلیمات، سائنسی معلومات سمیت وہ سب کچھ ہے جو انسان تصور کی دنیا میں دیکھنا، سننا اور پڑھنا چاہتا ہے۔ اس چھوٹی سی ڈبیا میں ایک پوری دنیا موجود ہے جس کی سیر کرنے سے آنکھیں تو تھک سکتی ہیں لیکن اس دنیا کی رنگینیاں ختم نہیں ہوتیں۔
ہر نیا آنے والا دن سمارٹ فون میں نت نئی تبدیلیاں لا رہا ہے۔ یہ ڈبیا جس کا سفر بٹن والے ایک فٹ لمبے بھدے سیٹ سے ہوا تھا، آج گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہوا ٹچ اسکرین تک پہنچ گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ٹچ کی بجائے آواز کے ذریعے اسے کمانڈ دی جائے گی اور عین ممکن ہے کہ ادھر انسان سوچے ادھر موبائل سیٹ ایک سگھڑ بیوی کی طرح بات سمجھ جائے اور حکم کی تعمیل کر دے۔
سیل فون کے استعمال کی بنا پر جہاں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں وہیں کئی سماجی اور اخلاقی مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ اس میں ایک اہم مسئلہ اسراف، دکھاوے اور غیر ضروری مقابلے کے رحجان کا ہے۔ ہر دوسرا شخص مہنگا اور نیا سیٹ لینا چاہتا ہے خواہ اس کی ضرورت ہویا نہ ہو۔ اکثر لوگ موبائل خریدنے کے بعد اس کے سارے فنکشز کے بارے میں جانتے تک نہیں لیکن پیسہ پانی کی طرح بہانے پر مصر ہیں۔ کچھ لوگ محض دوسروں کی دیکھا دیکھی موبائل سیٹ بدلنے کے عادی ہیں کہ چند ماہ بعد ان کے پاس ایک نیا سیٹ ہوتا ہے۔ اس مقابلے میں صرف امیر ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس اور غریب لوگ بھی حصہ بقدر جثہ کے مصداق مصروف عمل ہیں۔
جن لوگوں نے اپنی زندگی کا مقصد کھیل تماشا، انٹرٹینمنٹ، دکھاوا اور ہلہ گلہ بنایا ہوا ہے ان سے تو بات کرنا لایعنی ہے۔ البتہ سنجیدہ اور بردبار لوگوں کو اس دکھاوے کی مسابقت میں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ سنجیدہ لوگوں کا سیل فون کے معاملے میں مقابلہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو بھیڑ چال کی تقلید ہے۔ حالانکہ ہمیں جان لینا چاہئے کہ عوام کی اکثریت سوچے سمجھے بغیر معاملہ کرتی ہے۔ اکثریت کی بنا سوچے سمجھے پیروی گمراہی کی جانب لے جانے والا عمل ہے۔ دوسری وجہ لوگوں کے طعنوں سے بچنا ہے کہ اتنا پرانا سیٹ رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ لوگوں کا کام تو نکتہ چینی ہی کرنا ہے خواہ ہم کچھ بھی کرلیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسا موبائل سیٹ لیا جائے؟ اس کا جواب اگر دو اور دو چار کی طرح ہوتا تو بات بہت آسان تھی۔ لیکن ہر شخص کی ضروریات مختلف ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم اپنی ضروریات کا تعین کریں کہ وہ کونسا موبائل سیٹ ہے جو ہماری انٹرٹینمنٹ، آفس، گھر داری اور سوشلائزیشن کی جائز ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کے بعد ہم ان ضروریات کے مطابق ایک فون خرید لیں اور اس وقت تک نہ بدلیں جب تک کہ ہمارے پاس اس تبدیلی کی کوئی واضح وجہ ہو۔
سب سے بہترین موبائل سیٹ وہ ہے جو ہماری ضروریات پوری کرتا ہو۔ باقی سارے سیٹ اسراف، نمائش، دکھاوا اور دھوکا ہیں۔ اسراف کا معاملہ یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہ ہمارے اطراف پھیلے ہوئے غریب لوگوں کی حق تلفی ہے۔ قرآن میں بیان ہوتا ہے:
اور رشتہ داروں کو (بھی) ان کا حق ادا کرو اور مسکین و مسافر کو (بھی ان کا حق دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔(بنی اسرائیل 17: 27-26)
اسراف کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتے اور جس کو اللہ ناپسند کریں تو اس کی دنیا و آخرت برباد ہے:
اے بنی آدم، ہر نماز کے وقت (لباس سے) اپنے تئیں آراستہ کرلیا کرو، اور کھاؤ پیو اور بے جا خرچ نہ کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف7:31)
اسراف پر ناپسندیدگی اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے جن باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر تھامے رہو اور متفرق نہ ہو اور تم سے جن باتوں کو ناپسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو اور سوال کی کثرت اور مال کو ضائع کرنا ہیں۔ (صحیح مسلم جلد 2، حدیث نمبر1987)
ایک اور حدیث مال کے تلف کرنے کو گناہ کا عمل بتاتی ہے:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آدمی کو گناہگار بنا دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنی یا اپنے متعلقین کی روزی کو ضائع کر دے۔ (سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر1679)
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح طرز عمل اختیار کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!