روزہ تنہائی کی عبادت ۔ ابویحییٰ
انسان جب نماز اور حج ادا کرتا ہے تو ہر شخص جان لیتا ہے کہ بندہ کیا کر رہا ہے۔ زکوٰۃ میں بھی مال لینے والا بہرحال جان ہی لیتا ہے کہ آپ انفاق کر رہے ہیں، مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ خدا کے لیے یہی خلوص روزے کو وہ عظیم عبادت بناتا ہے جس کے متعلق حدیث میں کہا گیا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا، (بخاری1894)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے اور خدا سے جڑنے کا مہینہ ہے۔ حضور نے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی تلقین کی ہے۔ آپ اس ماہِ مقدسہ کے آخری عشرے میں اپنی مسجد میں معتکف ہو جاتے اور دنیا سے کٹ کر اپنے شب و روز عبادت کے لیے وقف کر دیتے تھے۔
بدقسمتی سے آج مسلمانوں نے رمضان کے مہینے کو موج میلے کا مہینہ بنا لیا ہے۔ عالم عرب ہو یا عجم افطار پارٹیاں، شاپنگ اور پکوان کی کثرت اس مہینے کی پہچان ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اجتماعی شب بیداریاں اور اجتماعی اعتکاف کے پروگرام بھی اب عام نظر آتے ہیں۔ حالانکہ یہ عبادات سر تا سر تنہائی کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی طرح درس و تدریس کے پروگراموں کے لیے بھی اس ماہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اسی مہینے میں مسجد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
تاہم اہل علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ رمضان کے معاملے میں لوگوں پر بار بار یہ بات واضح کرتے رہیں کہ یہ مہینہ تنہائی کی عبادت کا ہے۔ ہاں سماجی تعلقات کے جو تقاضے ہیں وہ بہرحال نبھائے جائیں گے کہ احباب سے کٹ کر بھی نہیں رہا جاسکتا۔ مگر یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ یہ مہینہ اصلاً راتوں کو جاگ کر رب کی قربت تلاش کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ اپنے ایمان کی از سر نو دریافت اور اپنے اعمال کے احتساب کا مہینہ ہے۔ یہ اجتماعی عبادت کا نہیں انفرادی عبادت کا مہینہ ہے۔