رمضان اور توبہ ۔ ابویحییٰ
رمضان میں لوگ عبادت کی کثرت کیا کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ مگر رمضان کا حقیقی شعور جس شخص کو حاصل ہوگا وہ کثرتِ عبادت سے پہلے کثرتِ استغفار اور توبہ سے اپنے عمل کا آغاز کرے گا۔ کیونکہ توبہ ہی نیکی کی زندگی کا درست نقطۂ آغاز ہے۔
روزے کا قانون یہ ہے کہ انسان صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانا پینا چھوڑ دے اور تعلقِ زن و شو سے باز رہے۔ یہ ایک انتہائی سخت پابندی ہے۔ بدقسمتی سے لوگ اس پابندی کو اختیار تو کرتے ہیں، مگر اس کی اصل روح سے ناواقف رہتے ہیں۔ اس قانون کی اصل روح یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اپنے رب کی اطاعت کا اتنا پابند بنا لے کہ وہ تعمیلِ ارشاد میں اپنی بنیادی ضروریات تک کو چھوڑ ڈالے۔
روزے کی حالت میں جب جب بھوک اسے بے حال کرے اور وہ پھر بھی کھانے پینے کی چیزوں کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھے۔ پیاس کی شدت گلے میں کانٹے ڈالے تب بھی وہ پانی اور مشروبات کی طرف مڑ کر نہ دیکھے تو انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ جب انسان اس شعور کے ساتھ روزہ رکھے گا تو اسے لازماً احساس ہوگا کہ اس نے رب کی رضا کی خاطر اتنے مشکل کام تو کر لیے۔ باقی جو کچھ وہ کہتا ہے، اس کی پابندی کرنا اس سے کہیں ہلکا اور آسان کام ہے۔ یہ احساس اسے آمادہ کرے گا کہ وہ اپنی زندگی کا جائزہ لے۔ یہ دیکھے کہ کن کن مواقع پر اس سے رب کی نافرمانی کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ ان کو چھوڑنے کا عزم کرے۔ پھر سچے دل سے رب سے توبہ کرے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔
لوگ روزے میں کثرتِ عبادت کی طرف توجہ دیتے ہیں حالانکہ پہلے انھیں کثرتِ استغفار اور توبہ کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ اس کے بعد ہی کثرتِ عبادت انسان کو کچھ فائدہ دیتی ہے۔