قیامت کا ایک زندہ ثبوت ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ یہ دنیا ایک عارضی دنیا ہے۔ اس کا مقصد انسانوں کا امتحان ہے۔ اصل دنیا قیامت کے دن قائم ہوگی۔ اِس دنیا میں جن لوگوں نے اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار کیا قیامت کے دن وہ سرفراز ہوں گے۔ رہے وہ جو رب کی نعمتیں پا کر اس کے ناشکرے اور نافرمان رہے۔ آخرت کی ذلت ان کا مقدر ہے۔
موجودہ مادی دنیا میں رہتے ہوئے یہ پورا مقدمہ ماننا ایک بہت مشکل کام ہے۔ جہاں کوئی اخلاقی قانون نہیں چلتا بلکہ مادی قوت اور ظاہری شان و شوکت ہی اصل معیار ہے۔ یہاں خدا نظر نہیں آتا، فرشتے دکھائی نہیں دیتے، قیامت بہرحال ایک مستقبل کا واقعہ ہے، جنت اور جہنم کسی نے نہیں دیکھی۔ اب یہ بات مانی جائے تو کیوں کر مانی جائے۔
تاہم اللہ تعالیٰ نے جو بات اپنی کتاب میں سمجھائی ہے اس کو وہ انسانی تاریخ میں بار بار ثابت کرتے رہے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت رسولوں کی اقوام کی وہ روداد ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے مطابق ہر رسول نے اپنی قوم کو خدا کا پیغام پہنچایا اور ایمان و عمل صالح کی دعوت دی۔ قوم نے جب انکار کر دیا تو آخر کار ان کو ہلاک کر دیا گیا اور صرف ماننے والوں کو بچایا گیا۔ حضرت نوح سے لے کر سرکار دو عالم تک اللہ کا طریقہ نہیں بدلا۔ اس سے بڑا قیامت کی سزا و جزا کا ثبوت اور کیا ہوگا؟
یہ تو ماضی کا واقعہ تھا۔ مگر پچھلے چار ہزار برس سے حضرت ابراہیم کی اولاد کی شکل میں اللہ نے اس سزا و جزا کا ایک زندہ ثبوت دنیا میں قائم کر رکھا ہے۔ جب کبھی یہ لوگ نیکی اختیار کرتے ہیں۔ ان کو دنیا کا اقتدار دے دیا جاتا ہے۔ جب نافرمانی کرتے ہیں۔ ان پر ذلت اور مغلوبیت مسلط ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد اور کیا چیز ہے جسے دیکھ کر لوگ ایمان لائیں گے؟