قرآنی حکم کی عام خلاف ورزی ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کے بعض احکام ایسے ہیں جن پرننانوے فی صد لوگ عمل نہیں کرتے۔ مگر اس کے نتیجے میں معاشرتی زندگی میں بہت سے جھگڑے اور فساد پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال طلاق دینے کا وہ طریقہ ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ ایسا ہی ایک اور حکم قرضے کے لین دین کے موقع پر دستاویز لکھنے اور اس پر گواہ مقرر کرنے کی قرآنی ہدایت ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت 282 میں اللہ تعالیٰ نے انتہائی تاکید سے یہ قانون دیا ہے کہ جب قرض دیا جائے تو قرض لینے والے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرض کا یہ معاملہ لکھ کر دو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لے۔ اس حکم کی پیروی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مقروض قرض ادا کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ وہ اگر قرض واپس نہیں کرے گا تو معاشرے میں بھی رسوا ہوگا اور عدالت میں بھی اس کو طلب کیا جاسکتا ہے۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں قرضے کی کسی دستاویز کو لکھنے لکھانے پر توجہ دلائی جائے تو لوگ اس بات کا بہت برا مانتے ہیں۔ وہ اسے اپنے اوپر عدم اعتماد سے تعبیر کرتے اور گواہ مقرر کرنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ قرض خواہ بھی اسی میں عافیت سمجھتا ہے کہ وہ تعلقات کو نبھانے کے لیے اگر قرض دے رہا ہے تو یہ دستاویز بھی نہ لکھوائے۔
تاہم یہ بات جان لینا چاہیے کہ ایسا نہ کرنا ایک گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے نتیجے میں چاہے مقروض قرض ادا بھی کر دے تب بھی فریقین اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی خلاف ورزی کر کے گناہ کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ مزید یہ کہ اسی تساہل کے نتیجے میں بارہا مقروض قرض واپس نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو وقت اور رقم میں اختلاف اور جھگڑا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں قرض کو محبت کی قینچی سمجھا جانے لگاہے اور جسے اپنے تعلقات عزیز ہوتے ہیں وہ قرض دینے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔