قوم اور حکمران ۔ ابویحییٰ
یہ ساٹھ کی دہائی کا اخیر ہے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک نقطہ عروج پر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہر خرابی کی جڑ ایوب خان ہیں اور ان کے جانے سے ملک جنت بن جائے گا۔ ایوب خان چلے گئے، ملک بدستور جہنم بنا رہا۔
ستر کی دہائی کا اخیر ہے۔ جن بھٹو صاحب نے ایوب کے خلاف تحریک چلائی تھی، اب ان کے خلاف ہی ایک تحریک چل رہی ہے۔ بھٹوکے ظلم و ستم کی داستانوں کی صدا ہر جگہ عام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو ایک شیطان ہے جس کے جاتے ہی ملک جنت کانقشہ پیش کرنے لگے گا۔ بھٹو رخصت ہوگئے، ملک کے حالات بدتر ہوگئے۔
اسی کی دہائی کے اخیر میں بھٹو کو پھانسی دلوانے والے ضیا الحق کے خلاف بھی ایسے ہی جذبات تھے، مگر ان جذبات کے ابلنے سے قبل ہی وہ ایک فضائی سفر میں اگلی دنیا کو سدھار گئے۔ اس کی کسر نوے کی دہائی میں دو مرتبہ بے نظیر اور نوازشریف کو قوم وملک کا ولن ثابت کر کے پوری کر دی گئی۔ مگر ان سب کے جانے کے بعد بھی ملک وہی رہا۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں یہی نفرت پرویز مشرف کے لیے پیدا کی گئی۔ سارے عیب انھی میں جمع ہوگئے۔ مگر ان کی رخصتی کے بعد ملک کے حالات بد سے بدتر ہوگئے۔ پانچ سال بعد یہی نفرت زرداری صاحب کے لیے پیدا ہوگئی اور اب نواز شریف کے خلاف اس قوم کے دانشوروں نے وہی محاذ باندھ دیا ہے کہ وہ غدار، ملک فروش اور کرپٹ ہیں۔ ۔ ۔ اور عدالت نے کس جرم میں نااہل قرار دیا ہے؟ اپنی وہ تنخواہ جس کو لیا ہی نہیں، اثاثوں میں کیوں نہیں دکھائی۔
ساٹھ برسوں کی یہ تاریخ جتنے سوالات ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کے بارے میں پیدا کرتی ہے، اس سے کہیں زیادہ سوالات اس ملک کے اہل دانش، ان کی سوچ اور فہم و فراست کے بارے میں اٹھا دیتی ہے۔ تاہم ان نام نہاد اہل دانش کو ان کے حال پر چھوڑ کر ہم اصل مسئلے کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی سادہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا بگاڑ اجتماعی اور ہمہ گیر ہے۔ ہماری حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص اپنے مفاد کے معاملے میں کسی اصول، قانون کی کسی حکمرانی، کسی دیانت، کسی امانت، کسی سچائی اور کسی قدر کو نہیں مانتا۔ جہاں اپنا مفاد ہو، خواہش اور تعصب ہو، وہاں ہر شخص صداقت اور امانت دونوں کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ سڑک پر بے ہنگم ڈرائیونگ، سرکاری دفتروں میں ہر طرح کی کرپشن، پولیس اور عدالت میں انصاف کا کھلا قتل، دہشت گردوں کی علانیہ اور خاموش حمایت، پورنوگرافی دیکھنے میں ہمارا دنیا کے ٹاپ ممالک میں سے ایک ہونا؛ چند مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اخلاقی لحاظ سے بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں۔
دوسری طرف تاریخ کا سبق ہے کہ معاشرہ بگڑ جائے تو حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے خلیفہ راشد بھی بگاڑ کو ٹھیک کرنے کے بجائے اس کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ مذہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت سے بھرا ہوا ہے کہ جب تمھارے حکمران بگڑ جائیں تو ان کی نفرت کو فروغ دے کر ان سے ٹکرانے کے بجائے قوم کی اصلاح میں لگ جاؤ۔
ہمارے اسلاف نے اس ہدایت کو یاد رکھا اور دورِ آمریت میں رہتے ہوئے بھی صدیوں تک حکمرانوں کا بگاڑ عوام میں نہیں آنے دیا۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ حکمران تو ایک کے بعد ایک بدلتے گئے، مگر قوم کی حالت بہتر نہیں ہوسکی۔ کاش ہم اس جمہوری دور میں حضورکی ہدایت کو یاد رکھتے اور حکمرانوں کی نفرت کو فروغ دینے کے بجائے برائی کی نفرت عام کرتے تو معاشرے سے برے لوگ کم ہوتے چلے جاتے۔ جس کے بعد اچھی قوم بچتی اور اچھی قوم پر کبھی برے حکمران مسلط نہیں رہ سکتے۔ جس طرح یہ حقیقت ہے کہ ایک بری قوم کو برے حکمران ہی ملا کرتے ہیں۔