قوم کی قسمت ۔ ابویحییٰ
آج جدید دنیا کے مسائل یہ ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی پر کیسے قابو پایا جائے۔ توانائی کے جدید اور متبادل ذرائع کیسے حاصل کیے جائیں۔ صنعت، تجارت، سیاحت کو ترقی دے کر قومی آمدنی میں کیسے اضافہ کیا جائے۔ (Organic) غذا کو کیسے فروغ دیا جائے۔
جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی بنا ہوا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بچے جب اسکولوں کو جائیں گے تو اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ دہشت گرد ان پر حملہ نہ کریں۔ لوگ دفتروں اور بازاروں کو جانے کے لیے نکلیں تو کس طرح زندہ و سلامت لوٹ آئیں۔ خود کش حملے، بم دھماکے نہ ہوں یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
ہم اس حال کو کیسے پہنچیں ہیں، اس کی سادہ ترین وجہ یہ ہے کہ ہر قوم کے سامنے دو طرح کی لیڈرشپ ہوتی ہو۔ ایک وہ جو ایمان، اخلاق کی دعوت دیتی ہے۔ صبر اور معقولیت کی تلقین کرتی ہے۔ دلیل، مکالمے، اختلاف رائے اور رواداری جیسی اعلیٰ اقدار کو فروغ دیتی ہے۔ دوسری لیڈرشپ وہ ہوتی ہے جو جذباتیت کی اسیر ہوتی ہے۔ خرافات و توہم پرستی پر مبنی تصورات کی بنیاد پر لوگوں کے جذبات بھڑکاتی ہے۔ نفرت اور فرقہ واریت کی تلقین کرتی ہے۔ اپنے سوا ہر شخص کو باطل اور گمراہ سمجھنے کا درس دیتی ہے۔
ہماری قوم نے برسہا برس سے دوسری لیڈرشپ کا انتخاب کیا ہے۔ اپنی عقیدت و محبت ان پر نچھاور کی۔ ان کو اربوں روپے کے چندے دیے۔ اپنی اولادیں نذر کر دیں۔ جبکہ پہلی قسم کی قیادت کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ ان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی مہمیں چلائیں۔ ان کو قتل کیا اور ان کو جلاوطن کر دیا۔ آج ہم جس حال میں ہیں، اسی رویے کی وجہ سے ہیں۔
اگر ہمیں اپنا مقدر بدلنا ہے تو اپنا رویہ اور اپنی قیادت کو بدلنا ہوگا۔ اس کے بغیر تاریخ میں نہ پہلے کبھی کسی قوم کی قسمت بدلی ہے نہ آئندہ بدلے گی۔