قتل عام پر ہماری خاموشی ۔ ابویحییٰ
دو ماہ قبل میرے نوجوان بھانجے عبدالسمیع کا ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا۔ حادثے کے بعد میں نے پاکستان میں ٹریفک کے حادثات کے موضوع پر کافی تحقیق کی۔ پھر اس مسئلے کے حوالے سے متعدد آرٹیکل لکھے اور ایک ویڈیو لیکچر بھی ریکارڈ کرایا ہے جس میں اس مسئلے کی سنگینی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ بھی بتایا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔
اس دوران میں مجھے یہ اندازہ ہوا کہ بیشتر لوگوں کو اس طرح کی چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کے نزدیک انسانی جان کا زیاں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ مجھے متعدد پہلوؤں سے اس معاملے میں اپنی قومی بے حسی کا اندازہ ہوا۔ مثال کے طور اس موضوع پر بنائی گئی میری ویڈیو بعنوان ”قتل عام پر ہماری خاموشی“، ہمارے یوٹیوب چینل کی ناکام ترین ویڈیو ہے جسے دو ماہ میں بمشکل دو ہزار ویووز ہی مل سکے۔ کسی نے اسے شیئر کرنے اور آگے پہنچانے کی کوشش بھی نہیں کی حالانکہ اس میں بہت تفصیل سے ٹریفک کے مسئلے کی سنگینی اور حل کی طرف توجہ دلائی گئی تھی جو سالانہ لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کی جان لے لیتا ہے۔
اس کے برعکس اگر ”داڑھی کی شرعی حیثیت“، ”نواز شریف بمقابلہ عمران خان“، ”لونڈیوں سے جنسی تعلق کی شرعی حیثیت“، ”یہود و ہنود کی سازشیں“ وغیرہ جیسے موضوعات پر لکھا اور بولا جائے تو یہ ان گنت لوگوں کی دلچسپی کی چیز بن جاتی ہے۔ یہ تقابل ہماری بے حسی کا کھلا بیان ہے۔
انسانی جان کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہم ترین چیز ہے۔ جو معاشرے اس حرمت کی پامالی پر اس طرح بے حس ہوجائیں، وہ معاشرے اپنی خاموشی اور بے حسی سے قہر الٰہی کو دعوت دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ سردست ایک ایسا ہی معاشرہ بن چکا ہے۔ ہم نے اگر اپنی روش کو نہیں بدلا تو جلد یا بدیر قہر الٰہی کا کوڑا برسے گا اور پھر ہر بے حس کی کھال کھینچ دی جائے گی۔