قادیانی مسئلہ ، ختم نبوت اور مسلمان ۔ ابویحییٰ
پچھلے سو برسوں سے ہمارے ہاں قادیانی مسئلہ کسی نہ کسی حوالے سے زیر بحث رہتا ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ برے بھلے تمام مسلمان ختم نبوت کے تصور سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔مسلمان اب کسی صورت میں اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ختم نبوت کے عقیدے پر کسی طور پر بھی کوئی ضرب لگائے۔
یہ صورتحال کا ایک پہلو ہے۔ صورتحال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔وہ یہ ہے کہ ختم نبوت کو ماننے کا لازمی تقاضہ یہ ماننا ہے کہ اب دعوت دین کا کام کرنے کے لیے انبیا علیھم السلام نہیں آئیں گے اور اب یہ کام مسلمانوں کو کرنا ہے۔اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح ختم نبوت مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی حساس اور نازک مسئلہ بن گیا ہے ، اسی طرح دعوت دین کا کام بھی مسلمانوں کے لیے انتہائی حساس اور نازک مسئلہ بن جاتا۔
پوری دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی فکر سے مسلمان ہلکان ہوجاتے۔ اس موضوع پر کانفرنسیں ہوتیں۔ ادارے قائم کیے جاتے۔ بہترین لوگ اپنی زندگیاں وقف کردیتے۔امت کے وسائل کا بڑا حصہ اس کام کے لیے وقف ہوجاتا۔یہی ہر منبر و محراب کی صدا ہوتی۔ یہی ہر رسالے اور کتاب کا ایک اہم موضوع بن جاتا۔مگرعجیب بات ہے کہ یہ پہلو نہ کہیں زیر بحث آتا ہے نہ اس حوالے سے کوئی حساسیت کہیں پائی جاتی ہے۔
یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہورہا ہے کہ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نبی کریم کے پیروکاروں کو مخاطب کرکے یہ کہتے ہیں کہ ان کا کام دنیا پر حق کی شہادت دینا ہے۔مگرمسلمانوں کی یہ روش ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں کررہے، اپنے قومی تعصب میں کررہے ہیں۔اسلام کے نام لیواؤں کا یہ تعصب نہ دنیامیں ان کے کام آئے گا نہ آخرت میں۔اس کے برعکس مسلمان اگر دعوت کا راستہ اختیار کرلیں گے تو دنیا وآخرت کی عزت ان کی منتظر ہے۔