پورنوگرافی کا مسئلہ ۔ ابویحییٰ
دور جدید انسانی تاریخ کا ایک انتہائی مختلف اور منفرد دور ہے۔ اس دور میں جو مسائل جنم لے رہے ہیں وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل مختلف ہیں اور ان کو روایتی طریقوں سے حل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان مسائل میں ایک اہم اور بنیادی مسئلہ پورنوگرافی کا ہے جس پر آج کی گفتگو میں بات کی جائے گی۔
انسانوں کی ساخت
پورنوگرافی کی تاریخ شاید اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان ہے۔ اس کا ماخذ انسان کی وہ ساخت ہے جس میں انسانیت کے تسلسل کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصی اہتمام کیا کہ مرد و زن کے تعلق کو محض ایک حیوانی تعلق سے کہیں آگے بڑھا کر اسے ایک انتہائی پرکشش نفسیاتی تجربہ بنا دیا ہے۔ یہ نفسیاتی کشش ایک طویل رفاقت کو جنم دیتی ہے۔ یہ طویل رفاقت اس بچے کا واحد سہارا ہے جو تمام حیوانات میں سب سے کمزور پیدا ہوتا ہے اور اسے ایک عرصے یعنی دس بارہ برس تک والدین کے تحفظ اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ۤ
چنانچہ اسی حکمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کے تعلق کو دیگر جانوروں کی طرح ایک سادہ حیوانی تعلق کے طور پر نہیں بنایا جو ایک مختصر وقت کے لیے ملتے ہیں اور پھر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ بلکہ اس تعلق کو جبلت سے اٹھا کر نفسیات، ذوق جمال اور احساس لذت سے متعلق کر دیا گیا ہے۔ اور اس درجہ میں متعلق کر دیا گیا ہے کہ بہت سے ماہرین نفسیات انسان کی تشریح اسی حقیقت کو بنیاد بنا کر کرتے ہیں اور انسان کے ہر فکر و عمل کو اسی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
خدا کی حکمت
انسان کی اسی ساخت کی بنا پر انسان ہمیشہ میاں بیوی اور خاندان کی شکل میں مل کر رہتے ہیں۔ اس رشتے کی صورت میں محبت کا وہ تعلق قائم ہوجاتا ہے جو زندگی کے ہر سرد و گرم میں انسان کو مقابلے کی ہمت دیتا، بچوں کی نگہداشت کا بوجھ اٹھاتا اور بزرگوں کی ذمہ داری اس طرح اٹھاتا ہے کہ آخری آرامگاہ تک انھیں اپنے کندھوں پر چھوڑ کر آتا ہے۔
یہی خدا کی اصل اسکیم تھی۔ اسی بنا پر انسان کو جانوروں سے مختلف بنایا گیا تھا۔ مگر خدا کی حکمت بالغہ نے اسی جذبے سے انسانوں کا سب سے بڑا امتحان بھی تخلیق کر دیا جس کا اظہار اولین انسانوں یعنی حضرت آدم و حوا کی شکل میں ہوگیا۔ اسی واقعے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ یہ تعلق انسانوں کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔
چنانچہ شیطان ساری انسانی تاریخ میں اسی راستے سے انسانوں پر حملہ آور ہوتا رہا ہے اور تکبر کے بعد یہ انسانوں کو ہلاک کرنے والی دوسری سب سے بڑی اخلاقی برائی ثابت ہوئی ہے۔ اس کی انتہائی شکل تو زنا اور بدکاری ہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں شدید سزا کی وعید سنائی ہے۔ مگر اس سے کم تر چیزوں سے روکنا بھی ہمیشہ سے مصلحین کا طریقہ رہا ہے۔ مگر انسان ہمیشہ زنا میں بھی پڑے اور کمتر چیزوں سے بھی وابستگی ان کا طریقہ رہی ہے۔
دور جدید میں پورنوگرافی کا عالمی ظہور
دور جدید میں مغربی تہذیب نے ایک طرف عفت کے تصور کو پامال کیا ہے اور دوسری طرف زنا سے قریب کر دینے والی چیزوں کی بھی نت نئی شکلیں ایجاد کی ہیں۔ پورنوگرافی ایسی ہی ایک چیز ہے جس کا آغاز کیمرے کی ایجاد کے ساتھ ہوا۔ پہلے پرنٹ میڈیا اور پھر الیکٹرونک میڈیا سے یہ چیزیں عام لوگوں تک پھیلنا شروع ہوئیں۔ مگر ایک تو انسانی معاشرے عمومی طور پر ان چیزوں کو بہت زیادہ پسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھتے۔ دوسرے یہ کہ اس طرح کی چیزیں بنانے والے لوگ ظاہر ہے کہ فی سبیل اللہ تو یہ کام کرتے نہیں تھے۔ اس لیے اس کام میں پیسہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ معاشی اور سماجی عوامل کی بنا پر ان کا دائرہ محدود ہی رہا۔
یہ صورتحال اسی طرح رہی یہاں تک کہ پچھلی صدی کے اختتامی عشرے میں انٹرنیٹ کی ایجاد ہوئی۔ انفارمیشن ایج کا عظیم دھماکہ (Information Big Bang) ہوا۔ جس کے بعد یہ سارا مواد انٹرنیٹ پر منتقل ہونا شروع ہوگیا۔ ابتدا میں تو انٹرنیٹ پر بھی یہ فحش مواد پیسوں کے عوض دستیاب تھا۔ مگر انٹرنیٹ پرملنے والی پرائیویسی اور فحش مواد کی آسان دستیابی کی بنا پر یہ تیزی سے پھیلنا شروع ہوا۔ پیسوں کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ لوگ اس میدان میں اترنے لگے۔ اس وقت پورن انڈسٹری کی سالانہ آمدنی 97 ارب ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے میں ہالی وڈ کی آمدنی دس ارب ڈالر سالانہ اور بالی وڈ کی دو ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ ان دو بین الاقوامی اور سب سے بڑی فلم انڈسٹریز کی آمدنی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی دنیا کی چھوٹی چھوٹی اور مقامی فلم انڈسٹری کو ملا کر بھی ان سب کی مجموعی آمدنی پورن انڈسٹری کی آمدنی سے کم ہی ہوگی۔
پورنوگرافی کے پھیلنے کی وجوہات
تاہم جیسا کہ اصول ہے کہ جب زیادہ لوگ کسی میدان میں اترتے ہیں تو مقابلہ بڑھ جاتا ہے۔ دوسری محدودیت پورن انڈسٹری کی یہ تھی کہ اس کی جتنی زیادہ طلب معاشرے میں موجود ہے، اس کے اشتہارات پر اتنی ہی پابندیاں عائد ہیں۔ ان کا اشتہار نہ کسی چینل پر شائع ہوسکتا ہے نہ کسی اخبار میں۔ حتیٰ کہ بڑی ویب سائٹس جو اشتہارات ہی پر چلتی ہیں وہ بھی ان کا اشتہار عوامی مفاد میں نہیں لگاتیں۔
چنانچہ اس صورتحال کا حل ان لوگوں نے یہ نکالا کہ اپنا مواد بلامعاوضہ نیٹ پر پھیلانا شروع کر دیا۔ انھیں سہولت یہ تھی کہ انٹرنیٹ پر کسی ویب سائٹ کو تلاش کرنے کے لیے صرف ایک سرچ انجن پر اپنی مطلوبہ چیز کا نام لکھنا ہوتا ہے اور اس کی دستیابی کے تمام ذرائع اگلے لمحے میں سامنے ہوتے ہیں۔ چنانچہ لوگ مفت کی پورنوگرافی ذوق و شوق سے دیکھنے لگے۔ یہ چیزیں مفت فراہم کرنے کے پیچھے خدمت خلق کا جذبہ نہیں بلکہ انسانی نفسیات کا یہ مطالعہ تھا کہ فواحش اور بدکاری وہ چیزیں ہیں جن کی لت لگ جایا کرتی ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب کوئی شخص ان فری پورن ویب سائٹس پر آنے لگتا ہے تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کی طلب ختم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے۔
اس صورتحال کو مزید خراب ٹیکنالوجی کی ترقی کے دو اور پہلوؤں نے کیا۔ ایک یہ کہ انٹرنیٹ کی رفتار بڑھتی چلی گئی۔ پہلے پہل جہاں تصویر ڈاؤن لوڈ کرنا بھی ایک صبر آزما کام تھا وہاں اب اعلیٰ ترین کوالٹی کی ویڈیو یا فلم کا دیکھنا بھی بہت آسان ہے۔ دوسری طرف اسمارٹ فون کی آمد نے کمپیوٹر کو جیب میں پہنچا دیا۔ یوں دیکھنے والوں کا ذوق و شوق بھی بڑھا اور ان کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ پورنوگرافی ایک مرض کی طرح دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔
اب اس کے معاشرتی اور اخلاقی اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان میں میاں بیوی کے تعلق کی کمزوری اور خاندان کا ٹوٹ جانا، غیرحقیقی تصورات اور توقعات کی بنا پر ازدواجی مسرت کا خاتمہ، بچوں اور نوجوانوں کا غلط تصورات اور رویوں کا شکار ہونا، خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ وغیرہ نمایاں ہیں۔ تاہم یہ اثرات ابھی بہت ہلکے ہیں۔ اس لیے کہ اِس دور میں پورنوگرافی کا عروج شروع ہوا ہے۔ اس کے مکمل اثرات آنے والے برسوں میں سامنے آئیں گے جب اگلی نسلیں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے پروان چڑھیں گی۔
پاکستان کا مسئلہ
پاکستان میں اس حوالے سے صورتحال زیادہ خراب ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پورنوگرافی دیکھنے کا عمل دوسرے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ حالانکہ پاکستان میں پورن ویب سائٹس بلاک ہیں اور عام طریقے سے ان کا دیکھنا ممکن نہیں ہے۔مگر اب پورنوگرافی اتنی پھیل چکی ہے اور دوسری طرف اتنے چور راستے کھل چکے ہیں کہ صرف سنسر شپ سے اس کو نہیں روکا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے کچھ اور اقدامات کی ضرورت ہے جن پر ہم توجہ دلانا چاہیں گے۔
ان اقدامات کی اہمیت اس وجہ سے اور زیادہ ہوجاتی ہے کہ مغربی اور دیگر اقوام عالم میں تربیت کا کچھ نہ کچھ متبادل نظام باقی ہے اور وہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ چنانچہ وہ پورنوگرافی دیکھ کر بھی جرائم پر اس طرح جری نہیں ہوتے۔ مزید یہ کہ وہاں کے معاشرے اس طرح بند معاشرے نہیں ہیں جیسا کہ ہمارا معاشرہ ہے۔ بند معاشرے جب کھلتے ہیں تو بہت سی حدود پامال کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا اظہار ہمارے ہاں معصوم بچے بچیوں سے زیادتی کے وہ واقعات ہیں جو تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔
اصلاح احوال کا راستہ
اس حوالے سے پہلی چیز تربیت کا عمل ہے خاص کر مردوں کی تربیت۔ ہمارے مذہبی فکر کا یہ المیہ ہے کہ وہ اس معاملے میں ہمیشہ احکام دین کو خواتین کے پہلو سے پیش کرتا ہے اور ان کے مکمل پردے، ان کا دائرہ عمل گھر تک محدود کرنے اور مرد و زن کے اختلاط پر مکمل پابندی لگانے کو دین کی تعلیم کا اصل منشا سمجھتا ہے اور اسی کو بیان کرتا ہے۔
آپ غور کیجیے کہ یہ تینوں چیزیں پورنوگرافی کو دیکھنے سے کسی طور مردوں کو نہیں روک رہیں جو زیادہ تر اس فتنے کا شکار ہوتے ہیں۔ جبکہ دین کی اصل قرآنی تعلیم اس معاملے میں تربیت کا آغاز مردوں سے یہ کہہ کر کرتی ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو بچا کر رکھیں۔ یہ حکم سامنے رکھتے ہی تمام پورنوگرافی خود بخود اس کی زد میں آجاتی ہے۔
چنانچہ سب سے پہلی اصلاح جس کی ضرورت ہے وہ تربیت کے اس بنیادی تصور کو بدلنے کی ہے جس میں عورت ہی کو مخاطب کرکے پردے کے احکام سنا دیے جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مرد و زن دونوں کو بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ انھیں یہ حکم دیتے ہیں کہ دونوں اپنی نگاہوں کو آلودہ ہونے سے بچائیں۔ یہ عام زندگی میں بھی ہوگا اور انٹرنیٹ پر بھی ضروری ہوگا۔ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ان کا واسطہ اس ہستی سے ہے جس سے نہ نگاہوں کی خیانتیں چھپی رہتی ہیں اور نہ دل کے خیالات اس سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ چنانچہ نگاہوں کو آوارگی سے بچانا، جو قرآن کا اس باب میں پہلا بنیادی حکم ہے، اس کو سامنے رکھتے ہی لوگوں کے پاس وہ اخلاقی اور دینی بنیاد آجاتی ہے جس کی بنا پر ان کا ضمیر ان کو اس وقت اس برائی میں پڑنے سے روکے گا جب دوسرا کوئی روکنے والا موجود نہیں ہوتا۔
دوسری اہم چیز یہ حقیقت ہے اور جس کی طرف ہم نے پیچھے توجہ دلائی ہے کہ جنسی بگاڑ ایک نشہ، ایک لت اور خارش کے مرض کی طرح ہوتا ہے۔ خارش کے مرض میں ایک دفعہ کا کھجانا وقتی سکون دیتا ہے مگر اس کے بعد خارش اور بڑھ جاتی ہے۔ نشہ کی وقتی تسکین اگلی دفعہ زیادہ طاقت سے اور زیادہ مقدار میں نشہ کا مطالبہ سامنے کر دیتی ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر نہ صرف زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ اس کے قریب جانے سے بھی منع کر دیا گیا ہے کہ اس کی طرف لے جانے والے عوامل ایک مقناطیس کی طرح ہر اس شخص کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جو ان کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس دائرے سے باہر رہنا ہی عافیت کا راستہ ہے۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ لوگوں کو اس حوالے سے مسلسل تنبیہ کی جائے کہ اللہ نے زنا ہی سے نہیں روکا بلکہ اس کے قریب جانے سے بھی روکا ہے۔ اس حکم کی بار بار یاددہانی سے انسان پر یہ اثر پڑتا ہے کہ وہ محتاط زندگی گزارتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مزید یہ اہتمام کیا ہے کہ وہ دائرہ جس کے اندر وہ انسانوں کو رکھنا چاہتے ہیں وہ انھوں نے خود بیان بھی کر دیا ہے۔ یہ دائرہ نگاہ کی حفاظت سے شروع ہوتا ہے، باحیا لباس کے انتخاب سے ہوتا ہوا خواتین کے لیے نامحرموں کے سامنے زیب و زینت کی نمائش کی ممانعت پر ختم ہوجاتا ہے۔ یہ وہ فطری دائرہ ہے جس میں انسان رہیں تو عام طور پر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔
ہمارے ہاں روایتی طور پر پردے کے جو تصورات پیش کیے جاتے ہیں وہ معاشرے کی اکثریت ناقابل عمل سمجھ کر اختیار ہی نہیں کرتی۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھتے ہیں اور اس حد کو بھی پامال کرتے ہیں جو واقعتا دین کا مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس جب اصل احکام توازن کے ساتھ بیان کیے جائیں گے تو لوگ ان کو زیادہ قابل عمل پاکر ان کو اختیار کریں گے۔ جس کے نتیجے میں معاشرے کی عظیم اکثریت حدود آشنا زندگی گزارے گی جس سے مجموعی طور پر معاشرے میں خیر بڑھے گا۔
تیسری چیز جس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ فلم اور میڈیا انڈسٹری کو اب اجتماعی زندگی سے نہیں نکالا جاسکتا۔ البتہ ان کو حدود آشنا بنایا جاسکتا ہے۔ ان کو حدود آشنا بنا دیا جائے تو بین الاقوامی مقابلے اور انفارمیشن ایج کے اس دور میں یہ آپ کی دفاعی لائن بن سکتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے لوگ زیادہ تر ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلمیں اور پروگرام دیکھتے ہیں۔ ان کے نیم عریاں مناظر جو عام طور پر ان کا لازمی حصہ ہوتا ہے وہ پہلا ذریعہ ہوتے ہیں جو ایک عام ناظر کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ وہ مکمل عریاں اور فحش فلمیں دیکھے۔
چنانچہ ایسے میں ضروری ہے کہ پاکستان میں اس معاملے پر توجہ دی جائے اور میڈیا انڈسٹری کے لوگوں کو نیکی کا یہ سبق نہ پڑھایا جائے کہ انھیں اپنا کام چھوڑ کر تبلیغ میں لگنا ہوگا۔ بلکہ یہ بتایا جائے کہ تبلیغ کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ نے آپ کو پہلے ہی دے رکھا ہے۔ بس اس کو دینی حدود میں رہ کر استعمال کریں۔ مگر اس کے لیے ان اہل علم کی یہ رائے ماننی پڑے گی جو مطلقا ً ان چیزوں کی حرمت کے قائل نہیں بلکہ اخلاقی حدود میں رکھنے کے قائل ہیں۔ یہ بات ہماری مذہبی فکر کو گوارا نہیں۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
بہرحال اس معاملے میں سب سے اچھی مثال خود پاکستان ہی میں موجود ہے۔ ہماری مراد سن اسی کی دہائی کے وہ ڈرامے ہیں جن میں لکھاری، اداکار، صداکار اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ رکھتے تھے اور ان اخلاقی قباحتوں سے دور تھے جو عام طور پر میڈیا کا خاصہ ہوتا ہے۔ ہمارا سماجی زوال دیگر شعبوں کے ساتھ میڈیا میں بھی آگیا ہے، مگر حال ہی میں ایران اور ترکی نے ڈراموں کے شعبے میں کافی کام کیا ہے اور بعض پہلوؤں سے بہت کامیاب رہے ہیں۔
اس کے علاوہ عملی طور پر معاشی مسائل کی بنا پر شادیوں کی تاخیر ایک بہت بڑا سبب ہے جس کی بنا پر لوگ پورنوگرافی دیکھتے ہیں۔ بلوغت کے بعد پندرہ بیس سال تک جو نوجوان غیر شادی شدہ رہے گا، امکان یہی ہے کہ وہ ان چیزوں میں پڑے گا۔ اور چونکہ یہ ایک نشہ ہے اس لیے جس کو یہ نشہ لگ جائے وہ شادی کے بعد بھی اس نشے کا شکار رہتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس اہم سماجی مسئلے کو لوگ اپنی اپنی سطح پر حل کرنے کی کوشش کریں۔ بچوں کی شادی مناسب وقت پر کرنے کی فکر کریں اور اس میں غیر ضروری تاخیر نہ کریں۔
نشہ کا علاج
ایک آخری سوال اس حوالے سے ان لوگوں کا ہے جو اس نشے کے عادی ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس نشے کا شکار ہوجاتے ہیں وہ بڑی مشکل میں آجاتے ہیں۔ ایک طرف ان کا ضمیر انھیں مسلسل ملامت کرتا ہے اور دوسری طرف جو لوگ ضمیر کی چبھن کا اس طرح شکار نہیں ہوتے وہ خوف کا شکار ضرور رہتے ہیں۔ اس لیے کہ معاشرے میں یہ چیز بڑی ناگوار سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ ہمیشہ یہ خوف انھیں دامن گیر رہتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوگیا تو کیا ہوگا۔ ان تمام پہلوؤں سے لوگوں کی نفسیات پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔
اس نشے سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے دور رہے جو اس طرف لے کر جاتی ہیں۔ انٹرنیٹ بس ضرورت کی حد تک استعمال کریں۔ جب استعمال کریں تو تنہائی میں نہ کریں۔
اس طرح کے کسی مواد پر نظر پڑے تو فوراً پہلے لمحے میں اس جگہ سے ہٹ جائیں۔ عام حالات میں ٹی وی وغیرہ دیکھتے ہوئے بھی کوشش کریں کہ ہر اس منظر سے دور رہیں جو ان کی اخلاقی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ نماز، مسجد کا اہتمام، باوضو رہنا، اچھی صحبتیں بھی اس مسئلے کے حل میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اور ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ بے کار نہ بیٹھیں بلکہ خود کو کسی نہ کسی مثبت کام میں مصروف رکھیں۔ بے کار انسان کا ذہن شیطان کا کارخانہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ اپنے لیے کوئی مثبت مقصد تلاش کریں اور خود کو اس میں مصروف رکھیں۔
اس سب کے باوجود اگر غلطی ہوجائے تو اس کے اثر سے نکل کر فوراً توبہ کریں۔ آئندہ بچنے کا عزم کریں۔ دو نفل پڑھ کر توبہ کریں۔ کچھ صدقہ و خیرات کریں۔ کیونکہ نیکی برائی کو دور کر دیتی ہے۔ شیطان جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کو ہر دفعہ برائی کی طرف لانے کا نتیجہ مسلسل توبہ اور مزید نیکیوں کی شکل میں نکلتا ہے تو اس کی وسوسہ انگیزی خود ہی کم ہوجائے گی۔ پھر بھی کبھی خود ہی اس طرف رحجان ہو تو پچھلے تجربے کو یاد کریں کہ آخرکار ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ انسان ایک ذہنی مخلوق ہے اور مسلسل تربیت کے نتیجے میں انسان بدل جاتا ہے۔ انشاء اللہ اس عمل کے نتیجے میں آپ بھی بدل جائیں گے۔ مختصر یہ کہ کبھی مایوس نہ ہوں اور نیکی کی راہ کبھی نہ چھوڑیں۔ انشاء اللہ یہ عادت چھوٹ جائے گی۔
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث رحمت بن کر رہیں، باعث آزار نہ بنیں۔