پٹا ہوا مہرہ ۔ ابویحییٰ
ایک صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ والد صاحب کے ساتھ رہتے تھے اور والد صاحب ہی ان کا خرچہ اٹھاتے تھے۔ ان کے اپنے والد صاحب سے کچھ اختلافات ہو گئے۔ والد صاحب نے اس پر ناراض ہو کر ان کو گھر سے نکل جانے کا حکم دیا۔ انہوں نے اس کے جواب میں ادب سے عرض کردیا کہ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔
انسانوں کی کہانی میں ایسے کئی موڑ آتے ہیں جن کا مشاہدہ دن رات اس معاشرے میں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم باپ اور بیٹے کی یہ کہانی بعض اوقات اللہ اور بندے کی کہانی بھی بن جاتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب زندگی میں بندہ اپنے رب سے کچھ مانگتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی دعا و فریاد کا کوئی جواب نہیں آتا۔ بلکہ بارہا انسان کو نقصان اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ اللہ سے مایوس اور بد دل ہو جاتے ہیں۔ انہیں رب سے شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض لوگ غیر اللہ کے در پر جا پڑتے ہیں اور انہی سے حاجت روائی کی درخواست کرتے ہیں۔
تاہم بندوں کی ایک قسم اور بھی ہوتی ہے۔ وہ رب کو پکارتے ہیں اور جب جواب نہ ملے تو ناراض ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں: آپ نے جو کرنا ہے کر لیجیے۔ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ یہ الفاظ ایک ایسے انسان کے منہ سے نکلتے ہیں جو پٹے ہوئے مہرے کی طرح ہوتا ہے۔ جو اپنی شکست کی آواز آپ ہوتا ہے۔
اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ آسمان سے فرشتے نہیں اترتے۔ زمین پر بھونچال نہیں آتا۔ پٹا ہوا مہرہ درِ مالک پر پڑا رہتا ہے۔ جو سننے والا ہے وہ سب دیکھتا ہے، مگر خاموش رہتا ہے۔ اس کے ہاں سے کوئی جواب نہیں آتا۔ حاملین عرش محو حیرت رہ جاتے ہیں۔ جبریل و میکائیل پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ ملائکہ دم سادھے کھڑے رہتے ہیں۔ زمین و آسمان ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے ہیں۔ شجر و حجر دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ سورج اور ستارے نظریں بچا کر یہ منظر دیکھتے ہیں۔ دن و رات سارے دھندے چھوڑ کر تماشائی بن جاتے ہیں۔ ہوا اور فضا، صحرا اور سمندر، دریا اور جنگل، چرند و پرند، کوہ و چمن سب اس بے رخی پر دم بخود رہ جاتے ہیں کہ مانگنے والا کیسے محروم رہ گیا۔
وقت گزر جاتا ہے۔ کون کسی کے لیے رکتا ہے۔ سو دنیا بھی اپنے اپنے دھندوں میں لگ جاتی ہے۔ ملائکہ فرمانبرداری میں؛ دن رات، سورج چاند، تارے سیارے گردش میں؛ شجر وحجر، ہوا و فضا، صحرا ور سمندر، دریا اور جنگل، چرند و پرند، کوہ و چمن غرض تمام ساکنان ارض معمولات کی ادائیگی میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ پٹا ہوا مہرہ درِمالک پر پڑا رہتا ہے۔
پھر ایک روز حاملین عرش سے پوچھا جاتا ہے: یہ کون ہے اور کیا کہتا ہے؟
بہت اعلیٰ مقام والے بہت ادب کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ یہ ایک پٹا ہوا مہرہ ہے۔ اب تو کچھ نہیں بولتا۔ مگر جب تک بول سکتا تھا آپ کا نام لے کر کہتا تھا: ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ حاملین عرش کے پاس ایک فیصلہ آتا ہے: اس پٹے مہرے کو تقدیر کی بساط پر دنیا و آخرت کا بادشاہ بنادو۔
حاملین عرش محو حیرت رہ جاتے ہیں۔ جبریل و میکائیل پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ ملائکہ دم سادھے کھڑے رہتے ہیں۔ زمین و آسمان ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے ہیں۔ شجر وحجر دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ سورج اور ستارے نظریں بچا کر یہ منظر دیکھتے ہیں۔ دن و رات سارے دھندے چھوڑ کر تماشائی بن جاتے ہیں۔ ہوا اور فضا، صحرا اور سمندر، دریا اور جنگل، چرند و پرند، کوہ و چمن سب اس عنایت پر دم بخود رہ جاتے ہیں کہ پٹا ہوا مہرہ کیسے بادشاہ بن گیا۔
باپ بیٹے کو نہیں چھوڑسکتا۔ خدا بندے کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ پٹا ہوا مہرہ اس لیے بادشاہ بن گیا۔