پاکستانی قوم اور یاجوج ماجوج ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ دنیا میں مختلف قوموں کو عروج و زوال کے عمل سے گزار رہے ہیں۔ معلوم تاریخ میں یہ معاملہ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ ترکی میں واقع جودی پہاڑ پر حضرت نوح کی کشتی رکی تو ان کے ساتھ ان کے تین صاحبزادے سام، حام اور یافث بھی تھے۔ قرآن مجید نے یہ واضح کیا ہے حضرت نوح علیہ السلام کے یہی وہ بیٹے تھے جن کی نسلوں کوآنے والے زمانوں میں زمین پر بقا و استحکام حاصل ہوا(الصافات77:37)۔
اس کی شکل یہ ہوئی کہ یہ لوگ وقفے وقفے سے مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کرتے رہے اور مقامی آبادیوں پر غالب آتے گئے۔ قدیم تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کے صاحبزادے حام کی اولاد نے دنیا میں بڑی تہذیبیں اور سلطنتیں قائم کیں۔ یہ زیادہ تر افریقہ میں قائم ہوئیں کیونکہ ان کی اولاد کا ایک بڑا حصہ ہجرت کر کے افریقہ چلا گیا تھا۔ اس کے بعد سامی اقوام کا نمبر آیا جو زیادہ تر مشرق وسطیٰ میں آباد تھے۔ ان کا آخری بڑا گروہ جس نے زمین پر اپنا اقتدار قائم کیا تھا وہ عربوں کا تھا جس کے بعد پہلے خلافت راشدہ، پھر بنو امیہ اور آخر میں عباسیوں کی خلافت قائم ہوئی جسے ہلاکو خان نے 1258 میں ختم کیا۔
یہی وہ مرحلہ ہے جس میں حضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد دنیا پر غالب ہونا شروع ہوئی۔ یافث کی اولاد چونکہ ایک طویل عرصے تک غیر متمدن اور خانہ بدوش رہی، اس لیے غذا اور چراگاہوں کی تلاش میں دنیا میں سب سے زیادہ پھیلی۔ جاپان سے لے کر روس، ترکی سے ہندوستان، شمالی ایشیا سے لے کر یورپ اور پھر دور جدید میں امریکہ اور آسٹریلیا تک یہ لوگ پھیلے اور مقامی آبادیوں پر غالب آتے گئے۔ ہلاکو خان ایک تاتاری حکمران تھا جس کا تعلق اولاد یافث سے تھا۔ تاہم بعد میں ایک طرف منگول مسلمان ہوگئے اور دوسری طرف یافث کی اولاد ہی سے تعلق رکھنے والے ترک قبائل مسلمان ہوتے گئے جن کی اولادوں نے خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت جیسی عظیم حکومتیں قائم کیں۔ یہ سب مسلمان تھے، مگر درحقیقت اب یافث کی اولاد کا دور شروع ہوچکا تھا۔ یورپ اور امریکا کی گوری، روس کی سرخ، مشرق اور مشرق بعید کی زرد اور برصغیر کی گندمی اقوام سب اولاد یافث ہی ہیں اور دور جدید میں غلبے اور ترقی کی سیڑھیاں ایک کے بعد ایک کرکے طے کر رہی ہیں۔
اولاد نوح کے جس غلبے کا ذکر قرآن مجید نے سورہ الصافات میں کیا تھا، سورہ انبیا میں اس کا نقطہ عروج یاجوج ماجوج کا دنیا پر غلبہ قرار دیا گیا ہے،(الانبیا96:21)۔ یاجوج ماجوج آل یافث ہی کا ایک گروہ تھا جس کا ذکر قدیم آسمانی صحیفوں میں اسی حیثیت میں ہوا ہے۔ یہی پس منظر ہے جس میں قرآن مجید نے آل یافث کے بجائے یاجوج ماجوج کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
پاکستان زمانہ قدیم سے وسطی ایشیا سے آنے والے مہاجرین اور حملہ آوروں کی منزل رہا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستانیوں کی بھاری اکثریت دراصل آل یافث ہی کا ذیلی گروہ ہے جس میں مقامی لوگوں کے علاوہ کچھ حامی اور سامی اقوام کا رنگ بھی شامل ہے۔ مختلف نسلوں کے اس ملاپ کی بنا پر یہاں کے لوگ بہت باصلاحیت ہیں اور چونکہ یہ دور آل یافث کے ابھرنے کا ہے اس لیے پاکستانی قوم دنیا میں ترقی اور غلبے کے لیے ہر پہلو سے اہل ہے۔
اس قوم کا اصل مسئلہ منفی سوچ کا فروغ، مایوسی کی نفسیات اور بری اخلاقی تربیت ہے۔ اس قوم کا ذہن اگرمثبت ہوجائے اور اس کا کردار اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے تحت ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پاکستانی قوم کے لیے عظیم موقع ہے کہ وہ ہر غیرمتعلق چیز سے خود کو دور کرکے ایمان و اخلاق کی دعوت کو اختیار کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ایک عظیم سپر پاور بننے سے نہیں روک سکتی۔