پاکستان: حال اور مستقبل ۔ ابویحییٰ
پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس وقت امکانات و مشکلات کے ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جس میں سے ایک راستہ مکمل تباہی کی طرف اور دوسرا راستہ عظمت اور سربلندی کی طرف جاتا ہے۔
ہمارے امکانات یہ ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسی قیادت موجود ہے جس کی حمایت ملک کے چاروں صوبوں میں یکساں ہے اور جسے اسٹبلشمنٹ کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ملک کا وزیراعظم وہ شخص ہے جس کی شہرت ہر مشکل میں آخر کار کامیاب ہونے کی ہے اور جس کے بارے میں عام تاثر یہی کہ سیاست اس کے لیے دولت بڑھانے کا ذریعہ نہیں بلکہ عوام کی بہتری کا ایک مشن ہے۔
پاکستان سی پیک جیسے منصوبے کا اہم حصہ ہے جو اس وقت تو ملکی خزانے پر بوجھ اور قرض بڑھانے کا سبب ہے، لیکن مستقبل کی بہتری کے بہت سارے امکانات اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ملک کی زراعت، صنعت، سیاحت وغیرہ میں ایسے امکانات پوشیدہ ہیں کہ ایک باشعور سیاسی قیادت کے پاس اگر بصیرت، یکسوئی اور سیاسی استحکام ہو تو وہ کچھ ہی عرصے میں ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ یہ سارے امکانات اپنی جگہ مگر اس دوراہے کی دوسری راہ کے حقائق بڑے تلخ ہیں۔ ان پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔
پاکستان کئی اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران اور سپر پاور امریکہ کوئی بھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہی وہ معاشی کمزوری ہے جس نے تین دہائیوں قبل ایک سپر پاور سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ حالانکہ اس کے اسلحہ خانے میں اتنے ایٹم بم اور اتنی فوج تھی جس کا عشر عشیر بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ ان سب کے ساتھ یہ خوفناک حقیقت منہ کھولے کھڑی ہے کہ سول ملٹری تعلقات کی تلخی کی گونج اب سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کا سوشل فیبرک بالکل بوسیدہ ہوکر تارتار ہو رہا ہے۔ ایک طرف کرپشن ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کرپشن کے خلاف ہیں، مگر خود تہذیب و اخلاق کو پامال کرنا اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ سیاسی قیادت ہے جو لوٹ مار کو اپنا حق سمجھتی ہے اور دوسری طرف وہ سیاسی قیادت ہے جو بصیرت سے عاری اور الزام تراشی کو ہر قومی مسئلے کا حل سمجھتی ہے۔ ایک طرف رٹے اور نقل پر مبنی نظام تعلیم اور اس سے جنم لینے والی سطحیت پسند نسل ہے اور دوسری طرف فرقہ واریت، انتہا پسندی، تقلید اور جمود زدہ مذہبی طبقہ ہے۔
عروج اور تباہی کے اس سنگم پر ہم گویا معلق کھڑے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری قیادت ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ یہ غلط فہمی ہے۔ یہ خدا کی دنیا ہے۔ فیصلے وہی کرتا ہے۔ مگر اس کے فیصلے الل ٹپ نہیں ہوتے۔ ایک مسلمان قوم کے بارے میں اس کے فیصلوں کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ایمان و اخلاق کے بارے میں اس کا رویہ کیا ہے۔ قوم اگر متعصب، انتہا پسند، فرقہ وارانہ اور اخلاقی حس سے محروم لیڈرشپ کے پیچھے چلتی ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی لیڈر ہمیں مکمل تباہی سے نہیں بچا سکتا۔
لیکن اگر قوم یہ طے کر لیتی ہے کہ اسے خدا کی پکار پر لبیک کہنا ہے۔ تعصبات کے بجائے سچے ایمان، فرقہ واریت کے بجائے اخلاقیات، انتہا پسندی کے بجائے معقولیت کواختیار کرنا ہے تو پھر مبارک ہو۔ قوم کے اچھے دن آرہے ہیں۔ پھر ہمارا مستقبل محفوظ ہے۔ پاکستان دنیا کی ایک عظیم قوم بنے گا۔ یہی اس قوم کے بارے میں ہماری دعا ہے اور یہی امید ہے۔ مگر قوم جان لے کہ فیصلہ اس نے کرنا ہے، کسی اور نے نہیں۔