نوعمر بچوں کا انجام اور انسان کی پہلی زندگی ۔ ابویحییٰ
[ایک بہن ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کے مصنف کے اس نقطہ نظر کا پس منظر جاننا چاہتی تھیں جو غلمان کے حوالے سے انھوں نے بیان کیا تھا۔ اسی طرح وہ مصنف کی اس رائے کی وجہ بھی جاننا چاہتی تھیں کہ انسان اس دنیا میں ہدایت کی جس سطح پر ہے، اس کا انتخاب اس نے خود کیا ہے۔ مصنف نے دو ای میل میں ان کو جواب دیا ہے۔ پہلے میں ذرا اجمال تھا جو دوسرے میں کھول دیا گیا ہے۔ یہ دونوں ای میل قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔]
پہلا ای میل
تاخیر کے لیے معذرت لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ میں انتہائی مصروف تھا۔ آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1۔ پہلے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ اس مسئلے پر اہل علم کے مابین بہت اختلاف پایا جاتا ہے اور بالخصوص ان بچوں کے بارے میں جو منکرین کے ہاں پیدا ہوتے ہیں اور بچپن ہی میں انتقال کر جاتے ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے آپ مندرجہ ذیل لنک ملاحضہ فرمائیے
(نوعمر بچوں کا احوال )
میں نے اپنی رائے اُن اہل علم کے مطابق قائم کی ہے جو ان بچوں کے لیے جنت کے قائل ہیں۔ میں نے صرف اتنا کیا ہے کہ وہ جواز مہیا کیا ہے جس کی بنیاد پر یہ بچے جنت میں جائیں گے۔ اور یہ جواز سرتاسر مالک حقیقی کی رحمت، عدل اور اسکی حکمت کی صفات پر مبنی ہے۔ اگر آپ کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی دلیل موجود ہے تو آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں۔
2۔ قرآن سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ کل انسانیت نے مجموعی طور پر دنیا کی اس آزمائش کو خود قبول کیا تھا جیسا کہ سورہ احزاب میں بیان ہوتا ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے بہت واضح طور پر بیان کی ہے کہ انہوں نے انسان کو زبردستی اس امتحان میں مبتلا نہیں کیا ہے اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کتنے تباہ کن ہوسکتے ہیں۔
اس طرح اس بات کو ماننا بھی ایک عقلی تقاضہ ہے کہ ہدایت کس کو کتنی ملنی ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ زبردستی طے نہیں کرتے۔ ورنہ ابوجہل حشر کے دن یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ میرے ساتھ ناانصافی تھی کہ مجھے پیغمبر کے زمانے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ اس لیے کہ پیغمبر کے انکار کی سزا سب سے بدتر ہے۔ اگر مجھے اُس زمانے میں نہ بھیجا جاتا تو کم از کم میری سزا تو کم ہوتی یا ہوسکتا ہے کہ میں اسلام ہی قبول کرلیتا۔ یہی بات جزا کے بارے میں بھی درست ہے۔ آج کے زمانے کا سب سے نیک انسان بھی حضرت ابوبکرؓ کی برابری نہیں کرسکتا۔ اس بات کو بھی کوئی نیک انسان چیلنج کرسکتا ہے کہ اسے پیغمبر کے زمانے میں پیدا نہ کرکے اس کا اجر کم کر دیا گیا ہے۔
اس لیے میری عاجزانہ رائے اس بارے میں یہ ہے کہ ہر انسان کی ہدایت اور آزمائش کا درجہ بھی اُس کا خود کا چنا ہوا ہے۔ یہ بات قرآن سے اس طرح واضح ہوتی ہے کہ نہ صرف وہ یہ بیان کرتا ہے کہ انسان نے خود آگے بڑھ کر اس امانت کا بوجھ اٹھایا تھا بلکہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہر انسان اُس وقت انفرادی طور پر موجود تھا۔ اس لیے بظاہر کوئی وجہ اس بات میں مانع نہیں کہ ہر انسان کو یہ اختیار بھی دیا جاتا کہ وہ اپنی آزمائش کا درجہ بھی خود چن لے۔ یہی سبب ہے کہ جن لوگوں نے زیادہ اجر کی وجہ سے سخت آزمائش کا انتخاب کیا تو اُن کے لیے سزا بھی نتیجتاً سخت ترین ہے جیسا کہ رسولوں کے زمانے کے لوگ۔ یہ میرا نقطہ نظر ہے جو کہ میں نے قرآن کے ان نظائر کی بنیاد پر قائم کیا ہے لیکن اس سے اختلاف کا حق ہر ایک کو حاصل ہے۔
دوسرا ای میل
میرے اس جواب پر بہن نے اپنے نقطہ نظر پر اصرار کیا جس کے بعد میں نے اپنی بات کی کچھ اور وضاحت کی جو درج ذیل ہے۔
دیکھیے جو نقطہ نظر آپ بیان فرما رہی ہیں وہ اس شخص کے لیے تو یقیناً قابل قبول ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور عدل پر مکمل ایمان و یقین رکھتا ہو مگر جو شخص اعتراض کرنے کی جگہ پر آجائے یہ جواب اسے بالکل مطمئن نہیں کرسکتا۔ اس بات کو مثال سے یوں سمجھیں کہ کسی برس مقابلے کے امتحان میں امیدواروں کے ایک گروپ کا امتحان لیتے وقت انہیں ایک ہی پرچہ دینے کے بجائے الگ الگ پرچے دے دیے جائیں اور ان میں سے بعض کے پرچے انتہائی سخت ہوں اور بعض نرم تو لازماً کہا جائے گا کہ یہ عدل نہیں ہوا۔ جب تک کہ اس عمل کی کوئی معقول وجہ بیان نہ کی جائے۔ اب اس عمل کی ایک ہی معقول اور قابل قبول وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ الگ الگ پوسٹ کے امیدوار تھے تبھی سب کو الگ الگ پرچہ دیا گیا۔
اب یہ سمجھیے کہ اس دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کسی شخص کے اچھے برے حالات کو چھوڑ دیجیے کہ اس پر آخرت کی نجات منحصر نہیں اصل مسئلہ یہ سامنے آتا ہے کہ بعض لوگ ہدایت کے لحاظ سے ایسے حالات میں پیدا ہوتے رہے ہیں کہ ایمان قبول کرنا انتہائی مشکل کام تھا۔ وہ ایمان قبول نہیں کریں گے تو آخرت میں لازماً مارے جائیں گے۔ مثال کے طور پر انبیا کے زمانے میں جو لوگ پیدا ہوتے ہیں بالعموم ان کا آبائی مذہب شرک ہوتا ہے جس سے انہیں گہرا تعصب ہوتا ہے۔ اب ایک طرف نبی اور رسول ہے جس کی بات نہ ماننے کا نتیجہ جہنم ہے اور دوسری طرف اپنا تعصب ہے جسے چھوڑنا انتہائی مشکل ہے۔ مزید یہ کہ ایمان لانے کی شکل میں زبردست آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ یہ کتنا سخت امتحان ہے۔ اس کے برعکس میں اور آپ پیدائشی مسلمان ہیں۔ ایمان قبول کرنا ہمارے لیے سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی نبی کے انکار کرنے والے کے لیے اگر اس کے کفر کی بنیاد پر جہنم کا فیصلہ سنا دیا جائے تو وہ سوال کرے گا کہ آپ نے مجھے اتنا مشکل امتحان دیا ہی کیوں تھا۔ مجھے بھی کسی مسلمان کے گھر پیدا کر دیا ہوتا تاکہ میں اس سخت آزمائش میں پڑتا ہی نہیں۔ اب جواب میں اسے یہ بتایا جائے کہ اللہ کے علم و حکمت کا تقاضہ تھا کہ تمھیں اسی دور میں پیدا کیا جائے تو ظاہر ہے کہ یہ اس کے سوال کا جواب نہیں ہے۔ وہ صاف کہے گا کہ میرے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ نرمی کی گئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہستی سے زیادہ عدل کرنے والا کوئی نہیں نہ اس کی کسی سے رشتے داری ہے۔
میری بہن یہ ہے وہ سوال جو برسہا برس سے لوگ مجھ سے کرتے رہے ہیں۔ اس کا کوئی معقول جواب ہمارے ہاں نہیں دیا جاتا۔ اس عاجز طالب علم کے سامنے اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن کے مطابق اللہ تعالیٰ بار بار کہتے ہیں کہ وہ نہ صرف عدل کرنے والے ہیں بلکہ کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم کرنے والے نہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی ایک ملتے جلتے معاملے میں ہمیں ایک اصولی اطلاع دے دی ہے کہ انسانیت اس امتحان میں بالجبر نہیں بھیجی گئی بلکہ اپنی مرضی سے آئی ہے۔ ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے سامنے ارادہ و اختیار کی یہ امانت پیش کی تھی۔ تمام مخلوقات نے اس پیشکش کو رد کر دیا تھا مگر انسان نے اسے قبول کرلیا۔ چنانچہ سورہ احزاب کی آخری آیت میں لیعذب اللہ المنافقین۔۔۔ کے الفاظ سے واضح کر دیا گیا ہے کہ سزا جزا برپا ہونے کی وجہ ہی یہ ہے کہ انسان نے اپنی مرضی سے یہ سب قبول کیا ہے اور پھر اس کے تقاضے نہیں نبھائے۔
یہ مقام اگر انسانیت کے بارے میں مجموعی طور پر ایک بات بیان کرتا ہے تو یہ اشارہ بھی کرتا ہے کہ انفرادی طور پر بھی یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بالجبر افراد کو مختلف نوعیت کے امتحان میں ڈال دیا ہو بلکہ ان سے یقیناًان کی مرضی لی گئی ہوگی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کے مطابق تمام اولاد آدم کو پہلے ایک دفعہ پیدا کیا جاچکا ہے۔
یہی وہ بات ہے جسے میں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ جس طرح انسانیت کو بالجبر دنیا میں دھکا دے کر نہیں بھیجا گیا اسی طرح افراد کا معاملہ ہوا ہوگا۔ بعض لوگوں نے جب انبیا کا ساتھ دینے کا اجر دیکھا تو وہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ بے دریغ اس امتحان میں کود پڑے۔ یہ سوچے بغیر کہ نہ ماننے کی شکل میں عذاب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اسی پر اللہ کا یہ تبصرہ ہے کہ انہ کان ظلوما جہولا۔ یعنی اجر دیکھا مگر یہ نہیں دیکھا کہ عذاب کیسا ہوگا۔ مگر اب تم اس امتحان میں کود گئے ہو تو بہرحال میرا قانون تو حرکت میں آئے گا اور منافقین و مشرکین کو عذاب اور اہل ایمان کو اجر مل کر رہے گا۔ یہ ہے میرے نزدیک اس آیت کی درست تاویل اور یہ ہے اس اعتراض کا جواب۔ میرے نزدیک اس کو نہ مانا جائے تو اللہ تعالیٰ کے عدل پر زبردست سوالات پیدا ہوجائیں گے۔
تاہم میں پھر عرض کردوں کہ یہ میرا نقطہ نظر ہے۔ آپ چاہیں تو اسے نہ مانیں لیکن پھر اس سوال کا کوئی معقول جواب آپ کو دینا ہوگا۔ صرف ایمان کے بیان سے کام نہیں چلے گا۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ ایمان کی بات کرکے لوگوں کو خاموش کرا دیا جائے۔ اب ہمیں سوالوں کے معقول جواب دینا ہوں گے۔
والسلام علیکم