صرف نیک لوگوں کے لیے لکھا گیا مضمون ۔ ابویحییٰ
نیک لوگ بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں ان کی نیکی، تقویٰ اور پارسائی نے خدا کی معرفت سے نوازا ہوتا ہے۔ دوسرے وہ جن کی عبادت و ریاضت، فضل و کمال اور منصب و مرتبہ نے انہیں خدا سے زیادہ اپنی ذات کا عرفان بخشا ہوتا ہے۔ ظاہری سیرت و کردار کے اعتبار سے اکثر دونوں گروہ ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات پیش آجاتے ہیں جو کسوٹی بن کر یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ کونسا گروہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مستحق ہے اور کونسا گروہ اس کے غضب کا حقدار ہے۔
اس طرح کے حالات پیش آنے کی ایک صورت وہ ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کی موجودگی میں اور ان کے سامنے کسی ایسے شخص کو بلند مرتبہ عطا کرے جس سے یہ خود کو برتر خیال کرتے ہوں۔ اگر یہ نیکو کار پہلے گروہ سے ہوتا ہے تو اس کا ذہن فوراً خدا کی بے حساب بخشش اور عطا کی طرف مڑ جاتا ہے۔ وہ منہ کے بل اپنے مالک کے حضور گر پڑتا ہے۔ اس کی زبان سے معرفت کے اعلیٰ ترین کلمات نکلتے ہیں۔ اس کے زمین بوس وجود سے وہ دعائیں نکلتی ہیں جو آسمان کا سینہ چیرتی ہوئی عرشِ قبولیت تک جاپہنچتی ہیں۔ اس کا عجز بارگاہِ ربوبیت میں اس طرح ملتجی ہوتا ہے کہ مالک تو نے اپنی کتاب میں یہ سکھایا ہے کہ جب حقداروں کو حق دیا جا رہا ہو اور ایسے میں کوئی سوالی آجائے تو اسے بھی ازراہِ عنایت کچھ نہ کچھ دے دینا چاہیے۔ مولیٰ تو نے اپنے اس بندے کو جو کچھ دیا یقینا اپنے علم و حکمت کی بنا پر دیا ہے۔ لیکن اس تقسیم کے وقت میں بھی ایک سائل بن کر تیری بارگاہِ کرم میں حاضر ہوگیا ہوں۔ اے رب تو مجھے وہ کچھ بلااستحقاق دیدے جو تو دوسروں کو استحقاق کی بنیاد پر دیتا ہے۔
خدا کی شانِ کریمی یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ جس کرم کی اس نے دوسروں کو تلقین کی ہے وہ خود اس کا اظہار نہ کرے۔ چنانچہ پھر اللہ کی رحمت مانگنے والے پر برستی ہے اور اس طرح برستی ہے کہ دنیا دیکھتی ہے۔ مانگنے والے کی جھولی عطا و بخشش کے خزانوں سے بھر دی جاتی ہے۔ خدا کے سامنے ذلیل ہونے والا انسانوں کے سروں کا تاج بنا دیا جاتا ہے۔ یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہے عنایت کرے۔ بیشک اللہ بہت بلند اور بڑا صاحبِ جود و کرم ہے۔
اس کے برعکس دوسری قسم کے نیکو کاروں کے سامنے پیش آنے والا ایسا کوئی بھی واقعہ ان کے قصرِ پندار پر حملے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ ان کے مینارۂ عظمت کو زمین بوس کر دیتا ہے۔ خدا کی بخشش ہمیں چھوڑ کر دوسرے کی طرف متوجہ ہو، ان کا نفس یہ گوارہ نہیں کرسکتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے دل میں اس شخص کے خلاف حسد، بغض اور عداوت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کا تکبر انہیں اللہ المتکبر سے بھڑا دیتا ہے۔ اس کا تو خیر کیا بگڑنا ہے، حسد و تکبر کی یہ آگ ان کا اپنا نشیمن جلا ڈالتی ہے۔ خدا کا قہر ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ بارگاہِ رب سے مردود کر دیے جاتے ہیں۔
ان دونوں قسم کے نیکوکاروں کی مثال قران میں بیان ہوئی ہے۔ پہلے گروہ کی مثال سیدنا ذکریا علیہ السلام کی شخصیت ہیں۔ وہ اپنے وقت کے نبی اور آل یعقوب ؑکی وراثت کے حامل تھے۔ اس کے ساتھ وہ حضرت مریم ؑکے خالو اور ان کے متولی بھی تھے۔ انہوں نے جب حضرت مریم ؑ کے پاس خدا کا خصوصی رزق اترتے دیکھا تو یہ نہیں سوچا کہ کل کی اس لڑکی پر جو خود ان کی نگرانی میں تھی خدا کا یہ احسان کیوں ہوا اور ان پر خدا کی یہ عنایت کیوں نہیں ہوئی؟ بجائے اس کے کہ وہ اس لڑکی سے حسد کرتے انہوں نے فوراً اپنا رخ خدا کی طرف کر دیا۔ اپنے وجود کی تمام تر بے کسی کے ساتھ انہوں نے اپنی خالی جھولی خدا کے سامنے پھیلا دی۔ اللہ تعالیٰ کی شانِ عطا نے ان کی جھولی منہ مانگی مراد سے بھر دی۔ جو اسباب ہوتے ہوئے عمر بھر نہ دیا وہ آج سارے اسباب منقطع ہونے کے بعد دے دیا۔ اس حال میں کہ خود بوڑھے اور بیوی بانجھ ہوچکی تھی۔ اور دیا بھی تو یحییٰ جیسا جلیل القدر نبی جس کی تعریف میں خود اس نے سردار، پاکباز اور نبی صالح کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر قرآن میں مریم و عیسیٰ کے تذکرے کے ساتھ زکریا اور یحییٰ کا ذکر کر کے اس واقعے کو ابدی زندگی دیدی۔
دوسرے گروہ کی نمائندہ مثال ابلیس ہے۔ خدا نے اس کے سامنے آدمؑ کو خلیفہ بنایا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ خدا کے حکم کے آگے سجدے میں گر پڑتا۔ مگر تکبر اور حسد کی آگ نے اسے اندھا کر دیا۔ اس کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف اپنی ذات کی تھی۔ اس لیے اس معاملے کو وہ اپنا اور آدم کا معاملہ سمجھا۔ وہ جان نہ سکا کہ یہ دراصل اس کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ اس نے خدا کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے خدا سے بغاوت کر دی۔ چنانچہ خدا کا غضب بھڑکا اور اس طرح بھڑکا کہ وہ کائنات کا واحد بدنصیب بن گیا جس نے خدا کے سامنے کھڑے ہوکر معافی مانگنے کے بجائے سرکشی کی مہلت مانگی۔
یہ مضمون صرف نیک لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ ان لوگوں کے لیے جن کے لیے نیکی کی راہ آسان کر دی گئی ہے۔ تاکہ وہ اس آسان راہ کی مشکل گھاٹی کو جان لیں۔ وہ جان لیں کہ نیک ہونے میں کوئی بھلائی نہیں۔ اصل بھلائی خدا کے لیے نیک ہونے میں ہے۔