نصیب کی بند گلی ۔ فرح رضوان
کوئی شخص اپنی منزل تک پہنچنے کو کتنا ہی بے قرار ہو اسے ٹریفک سگنل کی سرخ لائٹ پر خود کو بریک لگانے کا عادی بنانا ضروری ہے۔ ورنہ منزل سے ملاپ کا خواب ادھورا اور کسی ناگہانی سے تصادم کا قوی فیصد اندیشہ ہے۔
نجی زندگی میں بھی بروقت بریک لگانا وہ فرق ہے جو ’’تصادم اور ملاپ‘‘ کے بیچ ہوتا ہے۔ اگر کسی کو یہ فرق سمجھ آجائے تو ہمارا خاندان اور معاشرہ ٹوٹنے اور بکھرنے سے محفوظ ہو جائے گا۔ زندگی میں آزمائش یہی ہے کہ آپ اپنے طور پر کتنی ہی جلدی میں ہوں، لیکن کبھی بس کھڑے کھڑے دوسروں کے حصّے کی بتی سبز ہوتے دیکھنا ہی مقدر ہوتا ہے۔ لیکن اس مقام پر گاڑی کو واپس موڑنے، جھنجھلانے، چلانے اور اگلی گاڑیوں کے بالکل پیچھے اپنی گاڑی لگا کر گاڑی چلانے سے آپ خود کو بھی شدید نقصان پہنچانے کے ساتھ دوسروں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں۔ کبھی یہ آزمائش آجاتی ہے کہ آپ کا سگنل تو سبز ہے لیکن ایمبولینس کے لیے رکنا پڑتا ہے اور کبھی آپ کے راستے سے کوئی بزرگ یا بے پروا راہگیر اتنا آہستہ گزرتا ہے کہ سگنل واپس سرخ ہو جائے تو سوائے صبر کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
زندگی کی تیز ترین شاہراہ پر hit and run کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہاں کا ٹریفک اوپر والا چلاتا ہے، وہ اگلے موڑ پر اگر آپ کی گرفت نہ بھی کرے تو عین منزل پر کرلے گا۔ انسان اپنی چرب زبانی سے زندگی میں کتنے ہی قانون توڑے، ہر طرح کے ضابطہ اخلاق کو بالائے طاق رکھ دے، اور جب کبھی اس لاقانونیت کے باعث کوئی تصادم ہو تو گواہ نہ ہونے پر سفید جھوٹ بول کر صاف بچ جائے، لیکن ایک روز اس کی پکڑ ہو کر رہے گی۔ نصیب کی بند گلی اس کا تعاقب نہیں چھوڑے گی۔