نماز اور گناہ ۔ ابویحییٰ
اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری نماز ہمیں گناہ سے نہیں روکتی۔ حالانکہ قرآن پاک کی سورہ عنکبوت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بے شک نماز فحش اور منکر کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم نے گناہوں کی تین نمایاں اقسام بیان کی ہیں۔
۱) فحاشی، عریانی اور جنسی بے راہروی پر مبنی گناہ
۲) حق تلفی کی نوعیت کے وہ گناہ جنھیں سب انسان برا سمجھتے ہیں
۳) خدا کی سرکشی اور بغاوت کی نوعیت کے گناہ
ایک شخص انہی تین بنیادوں پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ نماز ان تمام اقسام کے گناہوں سے انسان کو بچاتی ہے۔ تاہم سورہ عنکبوت کی آیت میں صرف فحش اور منکر یعنی پہلی اور دوسری قسم کے گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا شخص جیسے ہی نماز میں رب کے حضور سر جھکاتا ہے وہ تیسری قسم کے گناہ یعنی رب سے سرکشی اور بغاوت سے دور ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس طرح کے جرائم کو اس آیت میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔
اس کے بعد پہلی اور دوسری قسم کے گناہ رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ نماز ان دونوں اقسام کے گناہوں یعنی فحش اور منکر سے روکتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ہماری نماز ہمیں ان دونوں اقسام کے گناہوں سے نہیں روک پاتی تو اس کے لیے پوری آیت کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس آیت کا ابتدائی حصہ تو ہم نے اوپر نقل کر دیا ہے باقی حصہ اس طرح ہے جو عام طور پر بیان نہیں کیا جاتا اور نہ اس پر توجہ کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہیں وہ بات بیان ہوئی ہے جو اہم ہے۔ فرمایا:
’’بے شک نماز فحش اور منکر کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
یہ ہے وہ پوری بات جو اللہ تعالیٰ نے کہی ہے۔ مطلب اس بات کا یہ ہے کہ نماز اصل میں اللہ کی یاد کا نام ہے۔ یہ انسانوں میں رہتے ہوئے خدا میں جینے کا نام ہے۔ یہ غیب میں رہتے ہوئے خدا کی عظمت کو تسلیم کر لینے کا نام ہے۔ یہ خدا کی پکڑ میں آنے سے پہلے خود کو رب کے حوالے کر دینے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یاد کی یہ کیفیت، یہ احساس بہت بڑی چیز ہے۔ اتنی بڑی کہ انسان ہر لمحہ خود کو رب کی نگرانی میں پاتا ہے اور پھر اس کا کوئی قدم خدا کی نافرمانی میں نہیں اٹھ سکتا۔ اس کا نفس تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی لگام اس کے اندر سے اٹھنے والے حیوانی جذبوں کے حوالے کر دے، مگر خدا کی یاد اسے آتی ہے اور اس کے نفس کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیتی ہے۔ اس کے جبلی تقاضے سر اٹھاتے ہیں اور اس کے جذبات کو بے قابو اور قلب و نظر کو بے ایمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خدا کی یہی یاد آتی ہے اور ہر بہکی نظر اور امڈتے جذبے کو حدود آشنا بنا دیتی ہے۔
اس کے مفادات اسے حلال و حرام سے بے نیاز ہونے کی تلقین کرتے ہیں، اس کی خواہشات اسے اخلاقی تقاضوں کی پاسداری سے روکتی ہیں، اس کے تعصبات اسے حق کی پیروی سے باز رکھنا چاہتے ہیں، بیوی بچوں کی محبت اسے حدود پامال کرنے پر اکساتی ہے، دنیا کی محبت اسے عارضی فائدوں کے پیچھے بھگاتی ہے، مال و مقام کی محبت اسے ظلم و عصیان پر آمادہ کرتی ہے مگر ہر ہر موقع پر یہ زندہ نماز، یہ خدا کی یاد والی نماز ایک چٹان بن کر اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے اور اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر اگر وہ جذبات سے مغلوب اور حالات سے مجبور ہو بھی جائے تو کبھی اس کا معاملہ ایک سرکش انسان کا نہیں بنتا بلکہ اگلی نماز میں اسے احساس ہوجاتا ہے کہ خدا زندہ اور اس پر نگران ہے۔ چنانچہ وہ رب کی طرف پلٹتا اور توبہ کرتا ہے۔
اس طرح نماز زندگی کے ہر موڑ پر انسان کو گناہوں سے دور رکھتی ہے۔ کیونکہ نماز جب ٹھیک طرح پڑھی جاتی ہے تو انسان کو ہمیشہ خدا یاد رہتا ہے اور یادآ جاتا ہے۔ یہی وہ یاد ہے جو انسان کو گناہ سے بچاتی ہے نہ کہ بے روح قیام و سجود۔