مستقبل کی دنیا ۔ ابویحییٰ
”یہ سن 2722 ہے۔ انسانوں نے نہ صرف مریخ اور دیگر سیاروں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے بلکہ وہ دیگر ستاروں کے گرد گھومتی سیاروں پر بھی اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ انسانوں کی آبادیاں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب انسان پیدا تو ہوجاتے ہیں، مرتے بڑی مشکل سے ہیں۔ لوگوں کی جوانیاں کئی کئی سو برس پر مشتمل ہوتی ہیں۔ موت ہزار برس کے بعد ہی آتی ہے۔ بیشتر بیماریوں کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ مضر وائرس اور بیکٹیریا کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ایک عالمی حکومت کے تحت تمام انسان پرامن طور پر رہ رہے ہیں۔ چھوٹے موٹے تنازعات کے سوا کوئی بڑا مسئلہ یا جنگ اب نہیں ہوتی۔ انسانی زندگی آسانیوں اور تعیشات کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں۔۔۔۔۔۔“
مذکورہ بالا اقتباس بظاہر مستقبل پر لکھے گئے کسی ناول یا فلم کے مسودہ سے ماخوذ لگتا ہے۔ یہی کچھ جدید دنیا کے انسانوں کے خواب بھی ہیں جن کی تعبیر کچھ زیادہ دور محسوس بھی نہیں ہوتی۔ جدید سائنس کی بڑھتی ہوئی ترقی اور سماجی شعور کا ارتقا ان ساری چیزوں کو امکانات کے دائرے میں لے آیا ہے۔ قرآن مجید نہیں ہوتا تو میرے جیسے لوگ کسی مغربی ملک میں سیٹل ہوکر اپنا معیار زندگی کہیں زیادہ بہتر کرتے اور مستقبل کے انھی خوابوں کی تکمیل کے لیے خود کو وقف کر دیتے۔ مگر قرآن مجید جس میں خدا بول رہا ہے، اپنے علم کامل کی بنیاد پر آنے والی زندگی کا ایک دوسرا نقشہ بیان کرتا ہے۔ میں نے اپنے ناولوں ”جب زندگی شروع ہوگی“ اور ”ادھوری کہانی“ میں اسی قرآنی نقشے کی تفصیل بیان کی ہے۔
قرآن مجید میں بیان کردہ ان تفصیلات پر ایمان لانے کے بعد کسی بھی انسان کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ آنے والی اس دنیا کے سوا کسی اور چیز کو اپنی زندگی کا اصل ہدف بنائے۔ کسی حقیقی مومن کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ قرآن کی بیان کردہ اس منزل کو چھوڑ کر کسی اور چیز کو اپنی منزل بنائے۔ یہ ناقابل تصور ہے کہ ایک بندہ مومن اس منزل تک پہنچنے کے اُس راستے کے سوا جسے قرآن مجید نے بیان کیا ہے، کسی اور چیز کو اپنی راہ عمل بنائے۔
مگر حیرت انگیز طور پر مسلمانوں کی اکثریت کے لیے اس آنے والی زندگی سے زیادہ اہم یہ زندگی اور اُس دنیا سے زیادہ پرکشش یہ دنیا ہے۔ جو لوگ آخرت کو اپنی منزل بناتے بھی ہیں، انھوں نے بھی جنت تک جانے کے وہ شارٹ کٹ ڈھونڈ لیے ہیں جن کے ذکر سے قرآن مجید خالی ہے۔ جو قرآن میں ہے ہی نہیں وہ ان کا دین ہے۔ جو قرآن میں تولہ ہے وہ ان کے ہاں سیر ہے۔ اخلاق، کردار اور سچی خدا پرستی جو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل سبق ہے وہ ان کے لیے ثانوی ہے۔ جو عبادات و معاملات میں اصل سنت نبی ہے وہ ان کے ہاں بدعتوں سے آلودہ ہوچکی ہے۔
اِدھر قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ سب سے بڑا ظالم ہے جو مذہب کے نام پر کھڑا ہوکر نئی دین سازی کرے۔ شرک و بدعات کو دین کے نام پر جاری کرے۔ اپنے توہمات اور خواہشات کو دین بنا کر پیش کرے۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ ایمان و اخلاق کو چھوڑ کر ظواہر پرستی کے پیچھے لگنا ہرگز نیکی کا وہ راستہ نہیں جو جنت تک لے جاتا ہے۔ مگر لوگ نہ قرآن کی بات سنتے ہیں نہ اس کی پکار پر توجہ دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو چھوڑ کر دنیا کو اپنا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں، ہلاکت ان کا مقدر ہے۔ جو لوگ ایمان و اخلاق کے راستے کو چھوڑ کر شرک و بدعت، ظواہر پرستی اور فقہی جدال اور فرقہ وارانہ تعصبات کو اپنا رستہ بنائے ہوئے ہیں، وہ تباہی کے گڑھے کی طرف جارہے ہیں۔ مستقبل کی خدائی دنیا میں ایسے لوگوں کے لیے پچھتاووں کے سوا کچھ نہیں۔