مجرم اور محبوب ۔ ابویحییٰ
عارف کی مجلس میں موجود کسی شخص کا یہ ایک تحریری سوال تھا۔ عارف نے بلند آواز سے سوال پڑھنا شروع کیا: ’’جناب آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے نے شادی کو بہت مہنگا اور مشکل جبکہ زنا کو بہت سستا اور ہماری دسترس میں کر دیا ہے۔ میں ایک غیر شادی شدہ نوجوان ہوں۔ غیر محرم خواتین سے بدنگاہی معمول بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل پر غیر اخلاقی چیزیں بھی دیکھنا معمول میں شامل ہے۔ اسے برا سمجھتا ہوں، مگر خود پر قابو نہیں رہتا ۔ کیا کروں؟‘‘
’’اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنالیں۔‘‘، عارف نے سوال ختم کر کے بغیر کسی توقف کے جواب دینا شروع کر دیا۔ لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے۔ وہ جانتے تھے کہ اب معرفت کا دریا بہنا شروع ہوچکا ہے۔ عارف بولتے رہے:
’’جذبہ ہمیشہ عقل پر غالب آجاتا ہے۔ یہ انسان کی کمزوری ہے۔ انسان جذبات کی رو میں بہہ کر غلط کام کرجاتا ہے۔ جذبہ پہاڑی دریا ہے۔ آپ اس کو نہیں تھام سکتے ہیں۔ ہاں اس کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ یہی آپ کی طاقت ہے۔ یہی کمزوری آپ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔‘‘
عارف نے آخری جملے پر خاص طور پر بہت زور دیا تھا۔
’’ان جذبوں میں دو جذبے شدید ترین ہوتے ہیں۔ غصہ اور جنسی خواہش۔ یہ جس وقت ابھرتے ہیں ہر دیوار گرا دیتے ہیں۔ کوئی بند دروازہ ان کی راہ نہیں روک سکتا۔ یہ ہر دروازہ توڑ دیتے ہیں، مگر‘‘، اس مگر کے بعد لمحے بھر کا وقفہ آیا۔ وہ پھر گویا ہوئے۔
’’مگر دیوار گرنے اور دروازہ ٹوٹنے سے پہلے یا ذرا بعد ایک لمحہ آتا ہے۔ ۔ ۔ لازمی طور پر آتا ہے۔ اس لمحے میں دل کی گہرائیوں سے اللہ کو پکاریے۔ اسے بتائیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ یہ بتائیے کہ کیا نہیں چاہتے۔ عام حالات میں بھی اللہ آپ کی پکار سنتے ہیں۔ مگر آپ کی وش لسٹ زمین سے آسمان اور آسمان سے عرش تک پھیلے نجانے کتنے فرشتوں سے گزر کر در قبولیت کے سامنے پہنچتی ہے۔ مگر اس لمحے میں آپ کا جذبہ آپ کی پکار میں اتنی تڑپ پیدا کر دیتا ہے کہ یہ پکار ہر دیوار ڈھاتی ہوئی اور ہر دروازہ توڑتی ہوئی سیدھی عرش تک جاپہنچتی ہے۔
پھر درقبولیت بلاتاخیر کھلتا ہے۔ سب سے پہلے شیطان کے ڈنک کو نکال کر سینے کی جلن کو ٹھنڈک سے بدل دیا جاتا ہے۔ پہلے صبر دیا جاتا ہے۔ پھر زیادہ وقت نہیں گزرتا کہ نعمتیں دے کر شکر کے اسباب پیدا کر دیے جاتے ہیں۔
یاد رکھیے۔ شیطان جذبات کو جال بنا کر آپ کو پھانستا ہے۔ مگر جو یہ فقیر بتا رہا ہے وہ کر لیجیے۔ شیطان کا داؤ اسی پر الٹ جائے گا۔ وہ آپ کو مجرم بنا رہا تھا۔ آپ محبوب بن گئے۔ وہ محروم کر رہا تھا مگر آپ کو دنیا و آخرت میں وہ سب کچھ دے دیا جائے گا جو آپ کے خوابوں سے زیادہ ہوگا۔ جذبہ آپ کی کمزوری ہے۔ اسے اپنی قوت بنا لیجے۔‘‘
عارف کی بات ختم ہوگئی۔ مگر ان کے الفاظ کی گونج نے ہر خانہ دل کو اس رب کی محبت سے معمور کر دیا تھا جو سراپا شفقت ہے اور جس کی عنایتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔