معافی کا رواج ۔ ڈاکٹر شہزاد سلیم
ترجمہ: محمود مرزا
انسانوں سے غلطی یا گناہ سرزد ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ اکثر و بیشتر ہم میں سے ہر شخص سے دانستہ یا نادانستہ طور پر بھول چوک اور غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجتاً پہلے سے بھی زیادہ غلطیاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ تاہم کوئی بھی غلطی ہوجانے کے بعد اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ انسان بے حسی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنی غلطی کو تسلیم کرے، اس کا اعتراف کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر اس غلطی کے نتیجے میں کسی شخص کی دل آزاری یا حق تلفی ہوئی ہے تو اس متعلقہ شخص سے فوراً معافی مانگ لے اور تلافی بھی کر لے۔
اہم بات غلطی کا ہونا نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ غلطی ہوجانے کے بعد انسان کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔ جو رویہ درکار ہے وہ یہ ہے کہ غلطی کا احساس ہوجانے کے بعد انسان لازمی طور پر معذرت خواہ ہو اور اپنی غلطی کی فوراً معافی مانگ لے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معافی مانگنا قطعاً آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ معافی مانگنے سے انسان دوسروں کی نگاہ میں بہت چھوٹا ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہی انسان معافی مانگنے سے خدا کی نظروں میں بہت بلند ہوجاتا ہے۔
آیئے ہم سب مل کر اس معاملے میں حساس بنیں اور معافی کے رواج کو عام کریں۔ یہی رویہ دنیا و آخرت میں ہمارے لیے بہتر اور سودمند ہے۔