موت کامسئلہ باقی ہے ۔ شفقت علی
کورونا وائرس جو پچھلے چھ ماہ سے پوری دنیا کے لیے وبالِ جان بنا ہوا تھا، اب کنٹرول ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بہت سے ممالک میں کورونا متاثرین کا گراف نیچے آرہا ہے اور مریض بڑی تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ کچھ ادویات اِس بیماری سے بچنے میں کارگر ثابت ہورہی ہیں تو ویکسین بھی تقریباً دریافت ہوچکی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ کچھ عرصہ بعد پوری دنیا اِس وائرس سے محفوظ ہوجائے گی۔(ان شاء اللہ)
پچھلے چھ ماہ میں ہم نے دیکھا کہ جب یہ وائرس چائنا سے باقی دنیا میں پھیلنا شروع ہوا تو لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اِس سے متاثر ہوئی۔ ایک کروڑ سے زائد لوگ اِس سے متاثر ہوئے تو لاکھوں لوگ لقمہ اجل بھی بنے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ موت کا سایہ ہر ایک کو اپنے سر پہ منڈلاتا دکھائی دیا۔ مگر اب یہ سایہ آہستہ آہستہ چھٹتا جارہا ہے۔
لاک ڈاؤن آہستہ آہستہ کھولا جارہا ہے اور زندگی کی سرگرمیاں رواں دواں ہونے کو پر تول رہی ہیں۔ مساجد اور مارکیٹس تو حفاظتی تدابیر کے ساتھ پہلے ہی کھول دی گئی تھیں۔ اب مزید دفاتر، تعلیمی ادارے اور دیگر شعبہ جات بھی بحال کرنے کی منصوبہ بندی شروع ہوگئی ہے۔ یوں نفسیاتی و معاشی مسائل سے پریشان حال چہرے خوشی سے کِھل اُٹھے ہیں۔
کورونا کا مسئلہ عنقریب ختم ہوجائے گا مگر موت کا مسئلہ پھر بھی باقی رہے گا۔ کورونا سے بچنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ موت سے نہیں بچنے والے کیونکہ موت سے بچنے کی نہ دوا ہے نہ ویکسین۔ کورونا وائرس خدا کی طرف سے موت کی ایک یاددہانی بن کر آیا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اِس یاددہانی کو اپنے لیے سُدھرنے کا ذریعہ بنالیں گے۔