یاد ۔ ابویحییٰ
بیٹے نے ائیرپورٹ کے مرکزی دروازے پر باپ سے جدا ہونے سے قبل اسے گلے سے لگایا تو باپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے شدت جذبات سے بیٹے سے پوچھا: ”کیا تم مجھے یاد کرو گے؟“، بیٹے نے غمگین آواز میں جواب دیا: ”کیوں نہیں ابو! میں ہر روز آپ کو یاد کروں گا اور روزانہ آپ سے رابطے میں رہوں گا۔“
آپ کبھی ائیرپورٹ چلے جائیں تو اس طرح کے مکالمات آپ کو اکثر سننے کو مل جائیں۔ اس طرح کے مکالمات سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی کو یاد کرنے کا مفہوم انسانوں کے ہاں کیا ہوتا ہے۔ انسان جب کسی کو یاد کرتا ہے تو وہ اس ہستی کے تصور اور احساس میں جیتا ہے۔ وہ اس کی مہربانیوں اور عنایتوں کو یاد کرتا ہے۔ اس کی یادوں اور باتوں کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے۔ اور کبھی کبھار اس کا نام لے کر اس سے غائبانہ مخاطب بھی ہوجاتا ہے۔ مگر ان تمام چیزوں میں انسانی جذبہ، احساس اور تصور پوری طرح موجود ہوتا ہے۔ احساس اور تصور کے بغیر کوئی یاد یاد نہیں ہوتی۔
مگر عجیب بات ہے کہ ہم انسانوں کو جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی یاد قائم کرنے کا حکم دیا جسے عام طور پر اللہ کا ذکر کہا جاتا ہے تو ہم اس ذکر اور یاد میں جذبے، تصور اور احساس کی نفی کرکے خدا کی یاد کو قائم کرتے ہیں۔ خدا کی ہستی انسانی حواس کی گرفت سے باہر ہے، اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ اس کی کسی شکل و صورت کا تصور کیا جاسکے لیکن خدا کی عنایت، قدرت اور اس کی عظمت کی ان گنت نشانیاں جو ہمارے وجود اور اس کائنات میں بکھری ہوئی ہیں۔ ان کے تصور اور احساس سے خالی ہوکر ہم کیسے خدا کو یاد کرسکتے ہیں۔
خدا نے ہمیں ہاتھ پاؤں دیے۔ آنکھیں، ناک اور کان عطا کیے۔ دل و دماغ کی دولت سے نوازا۔ عقل و احساس سے ہمارا دامن بھرا۔ رشتے ناتوں کا سہارا دیا۔ ذہانت، صلاحیت، طاقت اور ہر اس نعمت سے نوازا جس سے دنیا میں گزارا کرنا ممکن ہوا۔ ہمیں بھوک دی تو کھانا بھی دیا۔ پیاس دی تو پانی بھی دیا۔ زبان میں ذائقہ رکھا تو ان گنت پکوان اور متنوع مشروبات کی کثرت بھی رکھ دی۔ سونگھنے کی حس دی تو قوت شامہ کو خوشبوؤں سے معطر بھی کیا۔
زندگی میں نکاح کا رشتہ اور شادی کی رنگینی رکھی۔ اولاد کی ٹھنڈک آنکھوں کو عطا کی۔ رہنے کو گھر، برتنے کو سامان زندگی، چلانے کو سواری، کام کرنے کو ٹھکانہ اور ملنے جلنے کو احباب و رشتہ دار عطا کیے۔ خدا نے ہمارے لیے ساون کی رت میں ابرآلود ہوائیں چلائیں۔ رم جھم کی گھٹائیں برسائیں۔ فصلیں پکانے کو موسم کو گرمی بخشی۔ بہار میں پھولوں کی ست رنگی مہکار کو بکھیرنے کے لیے باد بہاراں چلائی اور رنگ بسنت بکھیرا۔ پودوں اور درختوں کو نیا لبادہ اوڑھنے کے لیے خزاں کی رت اور برف باری کی حسن ِسفید سے روشناس کرانے کے لیے موسم سرما کو زمین پر بھیجا۔
خدا نے ڈوبتے سورج کی لالی سے افق پر شفق کا رنگ بکھیرا۔ طلوع ہوتے سورج سے آسمان کو سنہرا کر دیا۔ رات کی تاریکی کو چمکتے تاروں اور روشن چاند سے منور کیا۔ صبح کے سویرے میں باد سحرگاہی کا نم اور شام کی ٹھنڈک میں خنک ہوا کے ساتھ تپتی دوپہر میں درختوں کا سایہ پیدا کیا۔ آسمان کی نیلی چادر کو سروں پر تانا تو پاؤں تلے وہ زمین رکھ دی جو کبھی نہیں کھسکتی۔ انسان کو ہوا میں پرندوں کی طرح اڑایا تو کشتیوں سے سمندروں کو اس کے لیے مسخر کر دیا۔
ان گنت نعمتوں میں سے یہ چند نعمتیں ہیں جو رب رحمان کے کرم و سخا کا تعارف کرانے کے لیے بہت ہیں۔ مگر اس رحمان کو ہم یاد کرتے ہیں تو ہمارا دل ہر احساس، تصور اور جذبے سے خالی ہوتا ہے۔ ہمارا نیک آدمی ہر جذبہ و احساس سے خالی ہوکر اس کے نام کی مالا جپتا ہے۔ ہمارا متقی ہر تصور سے خالی ہوکر اس کے حضور رکوع، سجود و قیام کرتا ہے۔ یہ نیکی اور تقویٰ قرآن کو مطلوب نہیں۔ قرآن کو جو مطلوب ہے وہ ائیرپورٹ پر ہونے والے ہر مکالمے سے سمجھا جاسکتا ہے۔