مائنڈ میپ ۔ عامر خاکوانی
ٹونی بزان عالمی شہرت یافتہ مائنڈ ایکسپرٹ، مائنڈ میپ کے بانی، سپیڈ ریڈنگ اور میموری کے حوالے سے ڈیڑھ سو کے قریب کتابوں کے مصنف ہیں۔ ٹونی بزان کا سب سے بڑا کام مائنڈ میپ(Mind Map) کی ایجاد ہے۔ انسانی دماغ پر اپنی ریسرچ سے ٹونی کو اندازہ ہوا کہ انسانی دماغ امیج کی شکل میں سوچتا اور یاد رکھتا ہے۔ انسانی دماغ درخت کے انداز میںکام کرتا ہے، جس کی شاخیں دائیں بائیں پھیلی باہر کو نکلی ہوتی ہیں اور ہر شاخ سے مزید شاخیں پھوٹتی ہیں۔ ٹونی نے مائنڈ میپ کو اسی انداز میں تیار کیا۔ کسی بھی ایشو پر غور کرنا ہو، یاد کرنا، سوچنا ہو، اس کے حوالے سے ایک درخت سا بنا لیا جائے، طریقہ آسان ہے۔۔۔۔۔ اے فور سائز کا سفید صفحہ لے لیں، درمیان میں ایک چھوٹا بیضوی سا دائرہ بنا لیں، اس پر جس بارے میں سوچنا ہو، اس کے حوالے سے کوئی تصویر یا امیج بنا لیں۔ مائنڈ میپ کے اصول کے مطابق سینٹر میں امیج ہونا ضروری ہے (مشہور اصول یاد رکھیں کہ ایک تصویر ہزار لفظوں کے برابر ہوتی ہے۔) پریکٹس کی ابتدا میں امیج نہیں مل سکا تو دائرے میں اس چیز کے حوالے سے ایک لفظ لکھ دیں۔ مائنڈ میپ کے تین چار بنیادی اصول ہیں۔ اسی بیضوی دائرے سے مختلف شاخیں (موٹی لکیریں) نکلیں گی، ہر شاخ پر کوئی خاص پوائنٹ لکھنا ہے، کہیں پر بھی لفظ ایک سے زائد نہ ہو، مختلف شوخ رنگ جیسے سرخ، سبز، نیلا، گلابی، پیلا وغیرہ استعمال کیے جائیں۔ دماغ ایک لفظ پر مشتمل پوائنٹ، رنگوں اور تصاویر کو اچھے طریقے سے شناخت کرتا اور یاد رکھتا ہے۔ مائنڈ میپ میں تمام شاخیں یعنی لکیریں موٹی سے پتلی ہوتی جائیں گی، جیسے درخت میں ہوتا ہے۔ کوئی لکیر سیدھی نہیں ہوگی کہ دماغ سٹریٹ ٹیکسٹ کو زیادہ دیر یاد نہیں رکھ سکتا۔ انسانی دماغ کا نیچرل سٹائل ہلکی سی قوس نما لکیر سے ملتا ہے، درخت کی تصویر ذہن میں لے آئیں۔ اس طرح شاخ در شاخ تقسیم کرتے جائیں۔ اپنے خیالات، پوائنٹس ایک شاخ میں اور پھر اس سے نکلتی چھوٹی شاخوں پر لکھتے جائیں۔
یوں ایک اے فور(A4) سائز کے کاغذ میں پورے پورے پروجیکٹ کے مائنڈ میپ بن جاتے ہیں۔ کئی سو صفحات کی کتاب پڑھنے کے بعد اس کے بنیادی نکات پر مشتمل ایک مائنڈ میپ بنا لیا جائے تو وہ ذہن میں محفوظ ہوسکتی ہے اور وہ مائنڈ میپ کسی فائل میں رکھ لیا جائے تو اگلی بار اس کتاب کا خلاصہ چند منٹوں میں جان لیا جائے گا۔ دلچسپی رکھنے والے نیٹ پر مائنڈ میپ کے بارے میں مزید ریسرچ کر سکتے ہیں۔ تجربات سے یہ بھی پتا چلا کہ اس طریقہ سے نہ صرف انسانی دماغ زیادہ بہتر اور منظم انداز میں سوچ اور کام کرسکتا ہے بلکہ تخلیقی صلاحیتیں بھی نمو پاتی ہیں۔ ٹونی بزان نے مائنڈ میپ کی طرح سپیڈ ریڈنگ تکنیکس بھی ایجاد کی ہیں، جن کی مدد سے پڑھنے کی رفتار دو تین گنا تیز ہو جاتی ہے۔
ٹونی بزان پاکستانیوں کا نہ صرف مداح ہے بلکہ بابے نے اتنے منطقی دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ سچ مچ اپنا ملک زیادہ اچھا لگنے لگا ہے۔ اقبال کا وہ مداح ہے، علامہ کی شاعری انگریزی میں پڑھ رکھی ہے، اقبال کے شاہین کے تصور نے خاص طور پر ٹونی بزان کو متاثر کیا۔ کہتے ہیں، پاکستان کے بانی محمد علی جناح (قائداعظم) بہت بڑے لیڈر تھے۔ پاکستان آنے سے پہلے ہر ایک نے ٹونی بزان کو ڈرایا کہ وہاں نہ جاؤ، خطرہ ہے، ہر طرف دہشت گرد ہیں، جو سکول کے بچوں تک کو نہیں چھوڑتے، گندگی اور بو ہے، لوگ غیرمہذب اور جاہل ہیں، خوراک خوفناک حد تک ان ہائی جینک ہے، جیسے ہی باہر سے کھایا، ڈائریا ہوجائے گا، ایسے شدت پسند ملک میں کسی گورے کا جانا شدید خطرے سے خالی نہیں۔ ٹونی بزان پچھلے سال کراچی آیا، پہلے ہی دن ہوٹل سے باہر کھانا کھانے گیا، گارڈ نے روکا کہ آپ کے لئے خطرہ ہے، ہوٹل میں کھانا کھائیں۔ ٹونی نے جواب دیا کہ میں شہر کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ کراچی کے سحر نے پھر اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اسے لوگ بہت اچھے لگے، کھانے خاص طور پر چکن تکہ، سی فوڈ پسند آئے۔ خواتین کے ڈریسز نے متاثر کیا، پاکستانی موسیقی بالخصوص کلاسیکل موسیقی نے بوڑھے انگریز دانشور کو مسخر کرلیا۔ کہتا ہے کہ یہ موسیقی ریاضی کے اصولوں پر ترتیب دی گئی ہے، پاکستانی گلوکاروں کے گلے لگتا ہے خدا نے خاص توجہ سے بنائے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں مختلف ہوٹلوں میں کھانے کھاتے، سڑکوں پر گھومتے اسے لوگوں کی حس ظرافت اور شگفتگی نے متاثر کیا۔ کہتا ہے کہ اتنے چیلنجز کے باوجود اپنا حوصلہ برقرار رکھنے والے اتنے زندہ دل لوگ دنیا میں کم ہی دیکھے ہیں۔
اتنی ڈھیر ساری مثبت باتیں سننے کے بعد میں نے اچانک سوال کیا، منفی پہلو کون سے محسوس ہوئے؟ ٹونی بزان نے ایک لمحے کے لئے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا: ”منفی باتیں تو نہیں البتہ میں یہ کہوں گا کہ بعض چیزیں یہاں غلط ہو رہی ہیں، وہ پاکستانیوں کو درست کرنی چاہئیں۔ تین باتیں خاص طور پر اہم ہیں۔ ایک تو بچوں کو سکول میں خواب دیکھنا سکھانا چاہیے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں بچوں کو خواہ مخواہ پریکٹیکل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں زیادہ منطقی اور ریشنل بنایا جاتا ہے۔ یہ سب چیزیں وہ وقت آنے پر سیکھ لیں گے۔ بچپن، خاص کر پرائمری کلاسز میں انہیں خواب دیکھنا، خواب سجانا سیکھنا چاہیے۔۔۔۔۔ ایسے بڑے خواب جنہیں مکمل کرنے کے لئے ان کے اندر جذبہ پیدا ہو۔ دنیا کو تبدیل کرنے والے بڑے لوگ، جو اس کائنات کے ذہین ترین انسان تھے، ان میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ بچپن میں خواب دیکھا کرتے تھے، خیالات میں ڈوبے رہتے اور نت نئے، اوٹ پٹانگ، مختلف قسم کے خیالات سوچا کرتے اور پھر بڑے ہو کر انہوں نے وہ سب کر دکھایا۔ سائنس کی شکل بدل دی، چاند پر پہنچ گئے، کھیلوں میں حیران کن کامیابیاں ممکن کر دکھائیں، آرٹ کے شاہکار بنائے، موسیقی میں انقلاب برپا کر دیا، اپنے ملکوں کی سیاست تبدیل کر دی۔
دوسرے، سکولوں میں رنگوں کا زیادہ بہتر استعمال سکھانا چاہیے۔ بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی رنگ کم برتے جاتے ہیں۔ بچپن میںبلیک کلر کی لیڈ پینسل اور پھر بعد میں صرف نیلا یا کالا رنگ۔ آخر کیوں؟ انسانی دماغ رنگوں کو پسند کرتا، ان کی طرف کشش محسوس کرتا اور رنگوں ہی میں سوچتا ہے۔ جب پھیکے رنگ برتے جاتے ہیں تو بچوں کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے، وجہ یہ ہے کہ دماغ بور ہوکر اپنے دروازے بند کر دیتا ہے۔ رنگ تخلیقی قوت کو بڑھاتے ہیں۔ سکولوں میں ہر طرف رنگ بکھرے ہونے چاہئیں، لکھنے میں مختلف رنگ استعمال کیے جائیں، ڈرائنگ اور آرٹ کا سکول ایجوکیشن میں حصہ بڑھنا چاہیے۔
تیسری کمزوری بچوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی بڑوں کو بھی دور کرنی چاہیے۔ وہ ہے اچھی اور متوازن خوراک۔ میری پچاس سالہ تحقیق بتاتی ہے کہ صحت مند جسم صحت مند دماغ پیدا کرتا ہے۔ ہم جو کھاتے ہیں، ہمارے دماغ کی ویسی ہی ساخت بنے گی۔ جنک فوڈ۔۔۔۔۔۔ جیسے برگر، پیزا، آئس کریم، مٹھائیاں، گھی میں تربتر سالن، طرح طرح کے چپس، چاکلیٹ وغیرہ کھاتے رہنے سے دماغ بھی جنک ہی پیدا کرے گا۔ چنانچہ یہ سمجھ لیا جائے کہ تخلیقی سوچ اور نئے آئیڈیاز اس چربی کے نیچے دفن ہوجائیں گے۔ صحت مند غذا کھانے والے کا دماغ نیچرل انداز میں کام کرتا رہے گا۔ دودھ، پھل، سبزیاں، سلاد، نٹس(ڈرائی فروٹ) وغیرہ اپنی غذا میں شامل کریں۔ تازہ ہوا لیں، فطرت کے حسن کو دیکھیں، اس سے ہم آہنگ ہوں، پھول، سبزہ، پانی، درخت، سرسراتی ہواؤں کو محسوس کریں، صبح کی سیر، آرٹ ،بڑے تناظر میں سوچنا، بڑے خواب دیکھنا اور ان کی عملی تعبیر پانے کے لئے سرگرداں ہوجانا ہی کامیابی کے راز ہیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے یہی کیا، بیس کروڑ پاکستانی ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
بشکریہ: روزنامہ دنیا