میڈیا اور عورتوں کی نمائش ۔ ابویحییٰ
’’لوگوں کی نگاہوں میں مرغوبات دنیا: عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبا دی گئی ہیں۔ یہ دنیوی زندگی کا سروسامان ہیں اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔ان سے کہو کیا میں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز کا پتا بتا دوں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن میں نہریں جاری ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ہوگی‘‘۔(آل عمران3:15-14)
قرآن کریم کی اس آیت میں مرغوبات ِدنیا کی جو فہرست بیان کی گئی ہے، اس میں سرِفہرست عورتوں کی محبت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس بات کو کسی اور نے سمجھا ہو یا نہیں، میڈیا کے لوگوں نے خوب سمجھا ہے۔
دور جدید میں الیکٹرونک میڈیا ایک غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ تعلیم، معلومات اور تفریح کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں، جہاں مطالعہ کا زیادہ رجحان نہیں اور شرح خواندگی بھی کم ہے، وہاں الیکٹرونک میڈیا ہی لوگوں کی دلچسپی کا اصل مرکز ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ دور جدید میں عورتوں کی نمائش اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ فلم اور ڈرامہ بنانے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی فلم اور ڈرامے کو لوگوں کی بڑی تعداد دیکھے۔ اسی طرح ٹی وی چینل چلانے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے چینل کے ناظرین اکثریت میں ہوں۔ ایک ناظر کی توجہ حاصل کرنے کا سب سے سہل اور آسان نسخہ یہ ہوتا ہے کہ خوبصورت خواتین کو میک اپ اور روشنی کے ذریعے سے خوب تر بنا کر اسکرین پر لایا جائے۔ ان کی نسوانیت اور صنفی کشش کو ابھار کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان کے ناز و انداز اور غمزہ و ادا کے ذریعے سے لوگوں کو ان کے شوق میں مبتلا کیا جائے۔ ان کے جسم کی نمائش کر کے ویورشپ (Viewership) کو بڑھایا جائے۔ عاشقانہ اور فحش مناظر سے ناظر کی توجہ حاصل کی جائے۔ اور ضرورت پڑے تو فنکارہ کو بے لباس کر کے فن کی ’’خدمت‘‘ کرائی جائے۔
الیکٹرونک میڈیا کے اس دور میں اب گھر گھر ٹی وی اور کیبل موجود ہے۔ ہر طرح کی فلمیں بازار میں عام ملتی ہیں۔ ان کو چلانے کے بہترین آلات، وی سی آر، سی ڈی پلے ئیر اور ڈی وی ڈی پلئیر کی شکل میں انتہائی کم قیمت پر بازار میں دستیاب ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد صبح و شام الیکٹرونک میڈیا سے استفادہ کرتی ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا، میڈیا پردکھائی جانے والی شے اکثر و بیشترعورت ہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک انسان کے اندر سے حیا کے فطری جذبے کو مغلوب کر دیتا ہے۔ انسان کے حیوانی جذبات اس پر غالب آجاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ عفت کا احساس ختم ہونے لگتا ہے۔ زنا اور فحاشی انسان کو ایک معمولی عمل لگنے لگتا ہے۔
اس صورتحال کا ایک حل یہ نکالا گیا ہے کہ گھر سے ٹی وی کو نکال دیا جائے۔ یہ بظاہر مکمل حل ہے۔ مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ حل اکثریت کے لیے ناقابل عمل ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں مزید ناقابل عمل ہوجائے گا کیونکہ دور جدید میں الیکٹرونک میڈیا کو روک دینا کسی طور پر بھی ممکن نہیں رہا ہے۔
اس صورتحال کا حل وہی ہے جو مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں سے باشعور لوگوں نے اپنے بچوں کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ یعنی فرد کی تربیت کی جائے۔ ایمان و اخلاق کو اس کے رگ و پے میں اتارا جائے۔ اپنی تہذیب، اقدار، روایات اور فطرت میں موجود پاکیزہ جذبات کو ابھارا جائے۔ حیا اور عفت کی اہمیت دل و دماغ میں راسخ کی جائے۔ زنا کے نقصانات اور اس کی شناعت کو اجاگر کیا جائے۔ نیز نکاح کے فطری تعلق سے، جتنا جلدی ہوسکے، نوجوانوں کو وابستہ کرنے کی تحریک برپا کی جائے۔
ان سب کے ساتھ لوگوں کو اس حوالے سے تعلیم دی جائے کہ اللہ کی جنت تقویٰ کے بغیر نہیں مل سکتی۔ یہ جنت وہ مقام ہے جہاں انسان ہمیشہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے سائے میں زندہ رہے گا۔ دنیا میں جتنی بھی نعمتیں پائی جاتی ہیں وہ جنت میں کہیں زیادہ بہتر بنا کر انسان کو دے دی جائیں گی۔
انسان ذہنی طور پر بہت طاقتور مخلوق ہے۔ جب وہ کسی شے کے بارے میں ایک نقطہ نظر قائم کر لیتا ہے تو بنیادی جبلی جذبات پر بھی قابو پالیتا ہے۔ اس کا ایک نمونہ رمضان کے روزے ہیں جب لوگ اللہ کے لیے کھانا پینا تک چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ جب انسانوں کی تربیت اس طرح کی جائے گی تو وہ خود کو اور اپنے اہل خانہ کو الیکٹرونک میڈیا کی پھیلائی ہوئی اس آلودگی سے بچانے کے قابل ہوجائیں گے۔