مضامین قرآن (77) شخصی رویے: گمان و تحقیق ۔ ابویحییٰ
گمان اور انسانی شخصیت
انسان کو اللہ تعالیٰ نے فکر و تدبر کا ملکہ دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ انسان اور جانوروں میں بنیادی فرق یہ نہیں کہ انسان دیکھتا اور جانور نہیں دیکھتا یا انسان سنتا ہے اور جانور نہیں سنتا۔ انسان اور جانور میں اصل امتیاز یہ ہے کہ حواس سے ملنے والی معلومات کو انسان اپنی عقل کے ذریعے سے غور و فکر کا موضوع بناتا ہے۔ یہ غور و فکر، تفکر و تدبر، تجزیہ و تحلیل ذہن انسانی کا وظیفہ ہے جسے قرآن مجید نے جگہ جگہ قلب اور دل سے تعبیر کیا ہے۔ سوچ و فکر کے لیے دل کی یہ تعبیر انسانی زبانوں کی ایک تعبیر ہے جو اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسان کا دل جب تک دھڑکتا اور زندگی کی شہادت دیتا ہے، انسان اس وقت تک خود کو خیال، سوچ اور فکر کے وظیفے سے آزاد نہیں کرسکتا۔ حد یہ ہے کہ انسان سوبھی جائے تو تخیل کی دنیا نہیں سوتی بلکہ خواب کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہے۔
انسان کی یہی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر انسان کو ایک عقلی وجود سمجھا جاتا ہے۔ وہ حواس سے ملنے والے علم کو اپنی عقل کے پیمانے پر پرکھتا ہے، اس کا تجزیہ و تحلیل کرتا ہے اور نتائج اخذ کرتا ہے۔ یہ نتائج انسان کو زندگی کے ہر معاملے میں مدد بھی دیتے ہیں اور وہ مسلمہ علم بھی تخلیق کرتے ہیں جو بعد میں کسی معلومات کو پرکھنے کا خود ایک پیمانہ بن جاتاہے۔
انسان کی اس عقلی صلاحیت کا ایک پہلو ظن یا گمان بھی ہے۔ یہ گمان سوچنے سمجھنے کی انسانی صلاحیت کا لازمی حصہ ہے اور ہم مستقل کچھ نہ کچھ گمان کرکے اپنی روزمرہ زندگی گزارتے ہیں۔ اس پہلو سے یہ ہماری شخصیت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ ظن و گمان جو اندازوں پر مبنی ہوتا ہے، اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اسے سوال، قرآئن اور تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ ان چیزوں کی تائید و تصویب کے بعد ہی گمان اس قابل ہوتا ہے کہ اس پر اپنے عمل اور اعتقاد کی بنیاد رکھی جائے۔
قرآن مجید اور گمان
ظن و گمان سے متعلق یہ ساری باتیں دنیوی پہلو سے بھی درست ہیں۔ مگر قرآن مجید جب ظن و گمان پر گفتگو کرتا ہے تو اس کے پیش نظر اس شخصی رویے کے مذہبی مضمرات پر توجہ دلانا ہوتا ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ بلا تحقیق ظن و گمان کی دنیا آباد کرنے کی عادت ایمان کے تقاضوں سے روگردانی اور اخلاقی رویوں کی پامالی کا سبب بنتا ہے۔ مثلاً ایمان کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھے، اس پر توکل کرے اور مشکل پیش آنے پر صبر و برداشت سے کام لے۔ ظن و گمان کی عادت انسان کو ان رویوں سے محروم کر دیتی ہے۔ وہ مشکلات پیش آنے پر طرح طرح سے اللہ تعالیٰ سے بدگمانی کرتا ہے اور اس سے مایوس ہوکر بارہا جاہلیت کے گمانوں، ناشکری کے رویوں اور کفریہ کلمات زبان سے نکالنے جیسے راستے اختیار کرلیتا ہے۔ اخلاق کا تقاضا ہے کہ انسانوں سے بدگمانی نہ کی جائے۔ بہت زیادہ گمان کرنے کی عادت انسان کو اس اخلاقی گناہ میں بھی مبتلا کرتی ہے اور انسان بدگمانی کا شکار ہوجاتا ہے یا کم از کم حسن ظن سے کام نہیں لیتا۔ ہر دوصورت اخلاقی طور پر مذموم ہے۔
ٍ
بدگمانی سے بچنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنے نظریات و خیالات کی بنیاد علم و تحقیق پر رکھے۔ اسے کسی چیز کا علم نہ ہو تو متعلقہ لوگوں یا علم والوں سے پوچھ لے۔ اپنے طور پر تحقیق کے جو ذرائع مل سکیں ان کو اختیار کرے۔ جو قرآئن دستیاب ہوں، ان کا بغور جائزہ لے۔ اس کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچے۔ ان میں سے کوئی چیز اگر ممکن نہیں ہے یا کی ہی نہیں ہے تو حسن ظن رکھے۔ اس بدگمانی میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لیے انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے سد ذریعہ کے طور پر بہت زیادہ گمان کرنے، تجسس کرنے اور جن چیزوں کا علم نہ ہو بلاوجہ ان کے پیچھے لگنے سے منع کیا ہے۔ انسان جب یہ نہیں کرتا تو اس سے متعلق اخلاقی خرابیاں وجود میں آتی ہیں، ظلم اور فساد جنم لیتا ہے اور لوگوں کی جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچتا ہے۔
توہم پرستی
ظن و گمان کا اگلہ مرحلہ توہم پرستی ہے۔ جب معاشرے ظن و گمان کی اندھی پیروی شروع کرتے ہیں تو نہ صرف انسانی معاملات میں ظلم و حق تلفی اور معاشروں میں فساد جنم لیتا ہے، مگر اس سے کہیں زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ مذہبی طور پر مشرکانہ اوہام اور بدعات کی ایک دنیا جنم لیتی ہے۔ قرآن مجید ظن و گمان کو زیادہ تر اسی پہلو سے زیر بحث لایا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زمانہ قدیم کی تمام مذہبی روایت شرک پر مبنی تھی۔ شرک اپنی اصل سے فرع تک توہم پرستی کے سوا کچھ نہیں۔ یونانی اساطیر ہوں یا ہندو دیومالاہو، دیوی دیوتاؤں کی کہانیاں ہوں یا انبیا و اولیا کے بارے میں غلو ہو،م ظاہر فطرت کی پرستش ہو یا بت پرستی کے پیچھے کارفرما تصورات ہوں، ان سب کے پیچھے جھوٹے اور بے بنیاد توہمات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہر مذہبی داستان جو عقیدت کے بازار میں ارزاں ہوتی ہے وہ توہمات کی دکانوں پر ہی بکا کرتی ہے۔ تحقیق کا ایک باٹ ہی ان سب کو بے وزن ثابت کرنے کے لیے بہت ہوتا ہے، مگر جب توہم پرستی کا چلن عام ہوجائے تو پھر علم و تحقیق کی بات کرنا ایک گناہ بن جاتا ہے۔
یہی معاملہ بدعتوں کا ہے۔ ہر بدعت کے پیچھے سنی سنائی باتیں، مشرکانہ اوہام، غیر مستند قصہ اور کہانیاں کارفرما ہوتی ہیں۔ بدعت کا ہر استدلال اندازوں، قیاسات، اوہام، غیر تحقیقی انداز فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ مشرکانہ اوہام اور بدعتیں آخرت میں انسانوں کی ہلاکت اور تباہی کا سبب بننے والی ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید نے جہاں ان دونوں چیزوں پر اور کئی پہلوؤں سے تنقید کی ہے، وہیں یہ توجہ بھی دلائی ہے کہ شرک و بدعت کی پوری دنیا ظن و گمان پر آباد ہے۔ صرف یہی ایک چیز اس کی شناعت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
قرآنی بیانات
”پھر اُس کے نوک پلک سنوارے اور اُس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور تمھارے (سننے کے) لیے کان اور (دیکھنے کے لیے) آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے) دل بنا دیے تم کم ہی شکرگزار ہوتے ہو“،(السجدہ9:32)
”تم لوگوں نے جب یہ بات سنی تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے لوگوں کے حق میں نیک گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ ایک کھلا ہوا بہتان ہے؟“،(النور12:24)
”اور انسان گمان سے سمجھ لے گا کہ جدائی کا وقت آپہنچا“،(القیامۃ28:75)
”اُن میں سے جس کی نسبت یوسف نے گمان کیا کہ وہ رہا ہو جائے گا، اُس نے اُس سے کہا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا۔ مگر شیطان نے اُس کو اپنے آقا سے یہ ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف کئی سال تک (اُسی طرح) قید خانے میں پڑا رہا۔“،(یوسف 42:12)
”(اُسے معلوم ہے کہ تم اِس لیے پیچھے نہیں رہے)، بلکہ تم نے یہ گمان کیا کہ رسول اور (اُس کے ساتھی) اہل ایمان اب کبھی اپنے گھروں کی طرف پلٹ کر نہیں آسکیں گے اور یہ بات تمھارے دلوں میں کھبا دی گئی اور تم نے برے برے گمان کیے اور (اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ) بالآخر تم لوگ برباد ہوئے۔“،(الفتح 12:48)
”یہ اپنے جسموں سے پوچھیں گے: تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ وہ جواب دیں گے: ہم کو اُسی اللہ نے گویا کر دیا جس نے ہر چیز کو گویا کیا ہے۔ (اِس طرح گواہی دیں گے اور لوگو، یہ بات بھی یاد رکھو کہ) اُسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور اب اُسی کی طرف لوٹائی جارہے ہو۔
تم یہ اندیشہ نہیں رکھتے تھے کہ تمھارے کان اور تمھاری آنکھیں اور تمھارے جسموں کے رونگٹے تمھارے خلاف گواہی دیں گے، بلکہ تم نے تو گمان کر رکھا تھا کہ اللہ بھی اُن بہت سی چیزوں سے واقف نہیں ہے جو تم کرتے ہو۔ تمھارا یہی گمان ہے جو تم نے اپنے پروردگار کے بارے میں کیا تھا، جس نے تم کو غارت کیا اور تم خسارے میں پڑ گئے۔“،(الفصلت21-23:41)
”حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بھی ہم نے آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا، جن کی طرف ہم وحی کرتے رہے۔ سو اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اُن سے پوچھ لو جو (اِس سے پہلے) یاددہانی والے ہیں۔“،(النحل43:16)
”تم اُس چیز کے پیچھے نہ پڑو جسے تم جانتے نہیں ہو، اِس لیے کہ کان، آنکھ اور دل، اِن سب کی پرسش ہونی ہے۔“،(بنی اسرائیل36:17)
”ایمان والو، اگر (اِن پکارنے والوں میں سے) کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو اُس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم جذبات سے مغلوب ہو کر کسی قوم پر جا چڑھو، پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔“،(الحجرات6:49)
”ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، اِس لیے کہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ اور (دوسروں کی) ٹوہ میں نہ لگو……“،(الحجرات12:49)
اِس غم کے بعد پھر اللہ نے تم پر اطمینان نازل فرمایا، ایک ایسی نیند کی صورت میں جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی اور کچھ وہ تھے کہ جنھیں اپنی جانوں کی پڑی تھی۔ وہ خدا کے متعلق بالکل خلاف حقیقت جاہلیت کے گمانوں میں مبتلا ہو رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اِن معاملات میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟ اِن سے کہہ دو کہ تمام معاملات اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ وہ اپنے دلوں میں وہ کچھ چھپائے ہوئے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ اِس معاملے میں ہمارا کوئی دخل ہوتا تو ہم یہاں (اِس طرح) مارے نہ جاتے۔ کہہ دو کہ اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو جن کے لیے قتل ہونا لکھا تھا، وہ اپنی قتل گاہوں تک پہنچ کر رہتے۔ (لہٰذا اِس بات کو ایک مرتبہ پھر اچھی طرح سمجھ لو کہ)یہ سب محض اِس لیے ہوا کہ اللہ تمھیں الگ الگ کرے اور اِس لیے کہ تمھارے سینوں میں جو کچھ چھپا ہوا ہے، اُس کو پرکھے اور اِس لیے کہ تمھارے دلوں کے کھوٹ چھانٹ دے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ دلوں کی باتیں جانتا ہے۔“،(آل عمران154:3)
”اور اِن کے اِس دعوے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے دراں حالیکہ اِنھوں نے نہ اُس کو قتل کیا اور نہ اُسے صلیب دی، بلکہ معاملہ اِن کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا۔ اِس میں جو لوگ اختلاف کر رہے ہیں، وہ اِس معاملے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں، اُن کو اِس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمانوں کے پیچھے چل رہے ہیں۔ اِنھوں نے ہرگز اُس کو قتل نہیں کیا۔“،(النساء157:4)
”زمین والوں میں زیادہ ایسے ہیں کہ اُن کی بات مانو گے تو تمھیں خدا کے راستے سے بھٹکا کر چھوڑیں گے۔ یہ محض گمان پر چلتے اور اٹکل دوڑاتے ہیں۔“،(الانعام116:6)
”(اِس کے جواب میں) یہ مشرک اب کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھیراتے۔ اُن لوگوں نے بھی اِسی طرح جھٹلایا تھا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں، یہاں تک کہ اُنھوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔ اِن سے پوچھو، تمھارے پاس کوئی علم ہے کہ ہمارے سامنے اُسے پیش کرسکو؟ (حقیقت یہ ہے کہ) تم محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو۔“،(الانعام148:6)
”حالاں کہ اُنھیں اِس معاملے کا کوئی علم نہیں ہے، وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں، اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔“،(النجم 28:53)