مضامین قرآن (66) اخلاقی مطالبات : مطلوب و غیر مطلوب رویے ۔ ابویحییٰ
اخلاقی مطالبات کی بحث میں خالق کے حقوق کے بعد ہم خلق کے حقوق کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس بحث کی ابتدا میں ہم نے یہ بات واضح کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں دو پہلوؤں سے ہماری رہنمائی کی ہے۔ ایک ان طبقات کے حقوق کی طرف مختلف طریقوں سے متوجہ کیا گیا ہے جن کے معاملے میں عام طور پر انسانوں سے کوتاہی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں قریبی تعلقات کے دائرے میں آنے والے نیز ضعیف و محروم طبقات کے حقوق پر خاص طور پر توجہ دلائی گئی تھی جیسے والدین، رشتہ دار، پڑوسی، یتامی و مساکین وغیرہ۔ جبکہ اس رہنمائی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اخلاقی طور پر مطلوب و غیر مطلوب رویوں کی نشان دہی کرکے مختلف طریقے سے لوگوں کو ان پر عمل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ یہ مطلوب و غیر مطلوب اخلاقی رویے عقل و فطرت میں اپنی اساس رکھتے ہیں اور قرآن مجید میں ان کا بیان یاددہانی، تاکید، تلقین کی نوعیت کا ہے۔ان کے اثبات کے لیے کسی علمی استدلال، عقلی استنباط یا منطقی بحث کی ضرورت نہیں۔ انسانی شعور اور انسانی ضمیر انھیں اپنی آواز سمجھ کر ان کی تائید کرتا ہے۔
قرآن مجید میں یہ مطلوب و غیر مطلوب اخلاقی رویے جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں۔ کہیں ان پر اجمال سے گفتگو کی گئی ہے اور کہیں تفصیل کے ساتھ۔ کہیں اصولی طور پر ان کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے اور کہیں ان کے اطلاقات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ ذیل میں ہم ایک ایک کرکے ان اخلاقی رویوں کو زیر بحث لائیں گے۔
عدل وقسط : اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی اہمیت
عدل و قسط یا انصاف ایک بنیادی اخلاقی قدر ہے۔ قرآن مجید نے اسے دین کے بنیادی اخلاقی مطالبے اور تمام دینی احکام کی اساس کے طور پر پیش کیا ہے۔ معاملہ دین کا ہو یا دنیا کا، خالق کا ہو یا مخلوق کا عدل و قسط ہر جگہ اور ہر پہلو سے مطلوب ہے۔ قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کا عدل و قسط کے حوالے سے تعارف اس طرح کرایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انصاف پر قائم ہیں اور انصاف ہی کا حکم دیتے ہیں۔ اس نے یہ دنیا انصاف کے اصول پر بنا کر اپنا میزان عدل قائم کر دیا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا کی ہر مخلوق اسی دائرے میں رہتی ہے جس میں اس کے خالق نے اسے رکھا ہے۔ مگر انسان کو چونکہ ارادہ واختیار دیا ہے، اس لیے انسان انصاف پر قائم نہیں رہتا۔ مگر اس کی رہنمائی کے لیے اور اسے انصاف پر قائم رکھنے کے لیے اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا جن کے ساتھ اپنی کتاب بطور ایک میزان عدل کے نازل کی تاکہ لوگ حق و باطل کے ہر معاملے میں انصاف کو جان کر اس کے مطابق زندگی گزاریں۔ پھر اسی میزان عدل کے مطابق روزِقیامت لوگوں کے اعمال کی بنیاد پر ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کر دیا جائے گا۔ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں اپنا رسول بھیج دیتے ہیں تو اسی انصاف کے اصول پر ان کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کی ان تعلیمات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عدل و انصاف کتنا اہم ہے۔
عدل کے اطلاقی پہلو
عدل و قسط کے حوالے سے یہ اصولی باتیں بتانے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عدل کے اطلاقی پہلوؤں کو بھی تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ فیصلہ کرنے والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جب بھی فیصلہ کریں انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کیونکہ ایسے لوگ ہی خدا کو محبوب ہیں۔ اسی طرح گواہی دینے والوں کو کہا گیا ہے کہ وہ گواہی دیتے وقت ہر طرح کی جانبداری کو چھوڑ کر عدل و قسط کے ساتھ گواہی دیں۔ دو گروہوں میں اختلاف ہوجائے تو ان کے درمیان بھی ثالثی کرنے والوں کو عدل و قسط کے ساتھ صلح کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ لوگوں کے ساتھ بات چیت میں بھی عدل کی بات کہنے کا حکم ہے۔ اسی کے ذیل میں حقیقت کو چھپانے کے بجائے صحیح بات بیان کرنا جس کی ایک مثال لے پالک بچوں کو ان کے اصل باپ کے نام سے پکارنا ہے، اس عمل کو عدل و قسط کے تقاضے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
کسی شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اسے ان کے درمیان عدل کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ ماں باپ کے لیے اولاد میں عدل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر معاملہ کمزور سے پڑے جہاں عام طور پر انسان عدل نہیں کرتا جیسے یتیم تو ان کے معاملے میں بھی عدل و انصاف کا حکم ہے۔ مردوں کی دوسری شادی کی اجازت بھی قرآن میں جس پس منظر میں بیان ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ وہ ان کی ماؤں سے شادی کرلیں تاکہ یتیموں کی ذمہ داریاں اٹھانے میں، ان کی ماؤں کی مدد سے، وہ بے انصافی سے بچ سکیں۔
ایک اور اہم مقام جہاں لوگ انصاف سے ہٹتے ہیں وہ ناپ و تول کا معاملہ ہے۔ چنانچہ جگہ جگہ قرآن میں توجہ دلائی گئی ہے کہ ناپ تول میں کمی سے بچیں۔ سورہ مطففین میں تو ایسے لوگوں کو ہلاکت کی وعید کی گئی ہے جو دوسروں سے تو پورا لیتے ہیں، لیکن ناپ تول کے وقت ان کے حق میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا واقعہ کئی جگہ بیان ہوا ہے اور ہر جگہ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے کو ان کے جرم عظیم کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
عدل و انصاف سے ہٹانے والے معاملات
عدل و انصاف کی اہمیت اور اطلاقی پہلوؤں کو بیان کرنے کے علاوہ قرآن مجید نے یہ بات بھی تفصیل سے بیان کی ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو انسان کو عدل و قسط سے دور کرنے والی ہیں۔ ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ جب معاملہ اپنی ذات کا ہو، والدین کا ہو یا اقربا کا تو انسان عدل و انصاف کے بجائے جانبداری کو ترجیح دیتا ہے اور غلط ہونے کے باوجود انھی کا ساتھ دیتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات کسی کی امارت سے مرعوب ہوکر یا فائدہ کی امید پر یا کبھی کسی کی غربت سے متاثر ہوکر ہمدردی میں انسان حق و انصاف سے ہٹ جاتا ہے۔ وہ حق و انصاف کی بات کو بگاڑ کر پیش کرتا ہے یا درست بات کرنے سے پہلو تہی کرجاتا ہے۔ اس کے برعکس کبھی کسی گروہ کی دشمنی اور مخالفت انسان کو اس طرح اندھا کر دیتی ہے کہ وہ عدل کرنے کے بجائے ناانصافی پر اترآتا ہے۔ قرآن مجید نے ایسے تمام معاملات پر توجہ دلا کر انصاف پر قائم رہنے اور اللہ کے لیے اس کی گواہی دینے کا حکم دیا ہے۔
قرآن نے یہ بات واضح کی ہے کہ حق و انصاف سے ہٹانے والی ایک بہت بڑی چیز انسان کی خواہش نفس ہے جو انسان کی عقل و ضمیر کو مفلوج کر دیتی ہے اور اسے انصاف سے ہٹنے پر آمادہ کرتی ہے۔ جبکہ یہ تقویٰ اور خدا کا خوف ہے جو انسان کو ہر طرح کے حالات میں عدل و قسط پر قائم رکھتا ہے۔ قرآن نے یہود کی مثال دے کر یہ بات واضح کی ہے جب کوئی قوم خواہش کا شکار اور تقویٰ سے خالی ہو تو پھر وہ اپنے اندر موجود انصاف کی تلقین کرنے والوں کے قتل تک پر آمادہ ہوجاتی ہے۔
قرآنی بیانات
”بے شک، اللہ (اِس میں) عدل اور احسان اور قرابت مندوں کو دیتے رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔“، (النحل 90:16)
”اِن سے کہو، میرے پروردگار نے (ہر معاملے میں) انصاف کا حکم دیا ہے۔“، (الاعراف29:7)
”اللہ نے، اُس کے فرشتوں نے، اور(اِس دنیا میں) علم حقیقی کے سب حاملین نے گواہی دی ہے کہ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ انصاف پر قائم ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔“، (آل عمران18:3)
”جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کو انصاف کے ساتھ (اُن کے عمل کا) بدلہ دے۔ اِس کے برخلاف جنھوں نے انکار کر دیا ہے، اُن کے انکار کے بدلے میں جو وہ کرتے رہے، اُن کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے۔“، (یونس4:10)
”(اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔“، (یونس47:10)
”ہم نے اپنے رسولوں کو صاف اور واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور اُن کے ساتھ اپنی کتاب، یعنی میزان نازل کی ہے تاکہ لوگ (حق و باطل کے معاملے میں) ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔“،(الحدید25:57)
”اور انصاف کے ساتھ سیدھی تول تولو اور وزن میں کمی نہ کرو۔“، (الرحمان9:55)
”یہ جھوٹ پر کان لگاتے اور (جھوٹی گواہی کے لیے) بغیر کسی تردد کے حرام کھاتے ہیں، لہٰذا (فیصلوں کے لیے) تمھارے پاس آئیں تو تمھیں اختیار ہے کہ اِن کا فیصلہ کرو یا ٹال دو۔ تم اِنھیں ٹال دو گے تو یہ تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور اگر فیصلہ کرو گے تو تم پر لازم ہے کہ اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ اِس لیے کہ اللہ اُنھی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو انصاف کا فیصلہ کرتے ہیں۔“، (المائدہ42:5)
”اور اگر اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اُن کے ساتھ جو عورتیں ہیں، اُن میں سے جو تمھارے لیے موزوں ہوں، اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ پھر اگر ڈر ہو کہ (اُن کے درمیان) انصاف نہ کر سکو گے تو (اِس طرح کی صورت حال میں بھی) ایک ہی بیوی رکھو یا پھر لونڈیاں جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ یہ اِس کے زیادہ قریب ہے کہ تم بے انصافی سے بچے رہو۔“، (النسا 3:4)
”اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری رکھو۔ ہم کسی جان پر اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ اور جب بات کہو تو عدل کی بات کہو، اگرچہ معاملہ اپنے کسی رشتہ دار ہی کا ہو۔“، (الانعام152:6)
”تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے، یہ جو لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب اُن کے لیے ناپتے یا تولتے ہیں تو اُس میں ڈنڈی مارتے ہیں۔“،(مطففین1-3:83)
”تم پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔ یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی اچھا طریقہ ہے۔“، (بنی اسرائیل35:17)
”میری قوم کے لوگو، ناپ اور تول کو ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا رکھو اور لوگوں کو اُن کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔“، (ہود85:11)
”اور سیدھی ترازو سے تولو۔“، (الشعرا182:26)
”ایمان والو، (قرض کے معاملات، البتہ ہوں گے۔ لہٰذا) تم کسی مقرر مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اُسے لکھ لو اور چاہیے کہ اُس کو تمھارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔…… پھر اگر وہ شخص جس پر حق عائد ہوتا ہے، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اُس کے ولی کو چاہیے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور (اِس بات کو سمجھو کہ) اللہ تمھیں تعلیم دے رہا ہے، اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“، (البقرہ282:2)
”اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔“، (النساء 58:4)
”ایمان والو، احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ (یہ ممنوع ہے)، اور (یاد رکھو کہ) تم میں سے جس نے جانتے بوجھتے اُسے مارا، اُس کا بدلہ تمھارے مواشی میں سے اُسی کے ہم پلہ کوئی جانور ہے، جیسا اُس نے مارا ہے، جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے اور یہ نیاز کی حیثیت سے کعبہ پہنچایا جائے گا۔“، (المائدہ95:5)
”اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر اُن میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرے، اُس سے جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف رجوع کر لے۔ پھر اگر رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ مصالحت کرا دو اور ٹھیک ٹھیک انصاف کرو۔ یقیناً، اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“،(حجرات9:49)
”ایمان والو، (اِس عہد و میثاق کا تقاضا ہے کہ) اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ، انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمھیں اِس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اِس لیے کہ اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے۔“،(مائدہ8:5)
”ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔ امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کا زیادہ حق دار ہے (کہ اُس کے قانون کی پابندی کی جائے)۔ اِس لیے (اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر) تم خواہشوں کی پیروی نہ کرو کہ اِس کے نتیجے میں حق سے ہٹ جاؤ اور (یاد رکھو کہ) اگر (حق و انصاف کی بات کو) بگاڑنے یا (اُس سے) پہلو بچانے کی کوشش کرو گے تو اُس کی سزا لازماً پاؤ گے، اِس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔“، (النسا135:4)
”یتیموں کے ساتھ ہر حال میں انصاف پر قائم رہو“، (النساء127:4)
”تم منہ بولے بیٹوں کو اُن کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔“، (الاحزاب5:33)
”رہے یہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے رہے ہیں اور…… خدا کے اُن بندوں کو قتل کرتے رہے ہیں جو لوگوں میں سے انصاف پر قائم رہنے کی دعوت دیتے تھے تو اِنھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔“، (آل عمران21:3)
”لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرو اور اپنی خواہش کے پیچھے نہ چلو کہ وہ تمھیں خدا کی راہ سے بھٹکا دے۔۔“، (ص26:38)