مضامین قرآن (64) حقوق العباد: رشتہ داروں سے حسن سلوک ۔ ابویحییٰ
حقوق العباد کے ضمن میں قریبی تعلقات کا وہ آخری دائرہ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، پڑوسیوں اور ماتحتوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پڑوسیوں کے ضمن میں ان کی تین اقسام قرآن مجید نے بیان کی ہیں جبکہ ماتحتوں میں قرآن مجید لونڈی غلاموں کا ذکر کرتا ہے۔ تاہم اس میں تبعاً وہ سارے تعلق آجاتے ہیں جہاں انسان کو کوئی اختیار حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ بیویوں کی حیثیت بھی خاندان کے ادارے میں شوہر کے ماتحت ہی ہے، اس لیے ان کے ساتھ حسن سلوک کو بھی ہم اسی ذیل میں بیان کریں گے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک
انسان کے تعلقات کا ایک دائرہ وہ ہے جو رشتہ داروں سے وجود میں آتا ہے۔ یہ رشتے ناتے زندگی بھر نہیں بدلتے اور ان سے تعلق ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ مگر تعلقات کی اس قربت اور مضبوطی کے باوجود انسان جب اپنا گھر بنا لیتا ہے تو اس گھر میں رشتے داروں کا آنا جانا اتنا نہیں ہوتا جتنا پاس پڑوس میں رہنے والوں کا ہوتا ہے۔ جس گھر سے آپ کے گھر کی دیوار ملی ہو، جس کا دروازہ آپ کے دروازے سے متصل ہو، جس گھر کے ہر اچھے برے کی آہٹ کسی رشتہ دار سے پہلے آپ کے کانوں تک پہنچ رہی ہو اور جس گھر کے مکینوں کے ساتھ آپ کا صبح و شام کا سامنا ہو، ان کے اچھے برے رویے اور نیک و بد عادات کا اثرآپ پر ہونا لازمی ہے۔ بارہا ان پڑوسیوں سے زندگی بھر کا سنجوگ ہوجاتا ہے اور نہ بھی ہو تب بھی برسہا برس ان کے ساتھ زندگی کے ایام گزرتے ہیں۔ یہ پڑوسی اگر اچھے ہیں تو زندگی بہت اچھی گزرتی ہے اور پڑوسی اگر برے ہیں تو پھر انسان کے لیے ہر وقت ایک دردِ سر کا سامان بنے رہتے ہیں۔ چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے۔
پڑوسیوں کی اس اہمیت کی بنا پر قرآن مجید نے نہ صرف ان کے ساتھ حسن سلوک کو موضوع بنایا ہے بلکہ ان کی تین اقسام میں زمرہ بندی کر کے ان کی اہمیت اور حقوق کو اسی ترتیب پر رکھا ہے۔ اس ترتیب میں سب سے پہلے وہ پڑوسی ہیں جو پڑوسی ہونے کے ساتھ رشتے دار بھی ہوتے ہیں۔ ایسے رشتہ داروں کو دیگر رشتہ داروں اور ایسے پڑوسیوں کو دیگر پڑوسیوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے حقوق دیگر پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے مقدم ہوتے ہیں۔
اس ترتیب میں دوسرا نمبر ان پڑوسیوں کا ہے جو اجنبی ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہر پڑوسی رشتہ دار نہیں ہوسکتا نہ ہوتا ہے، مگر وہ پڑوسی بہرحال ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی کے چوبیس گھنٹے انھی پڑوسیوں کی معیت میں گزرتے ہیں اور وہ انسان کی ایک آواز پر اس کے گھر کے دروازے پر آموجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اس حسن سلوک میں وہ چیزیں بھی آجائیں گی جو رشتہ داروں کے باب میں بیان ہوچکی ہیں۔ جیسے تحفے تحائف کا تبادلہ یا یہ نہ ہوسکے تو گھر میں بنی ہوئی چیزوں کو پڑوسیوں کو تحفے میں بھیجنا۔ اسی طرح رویے، طرز عمل اور گفتگو سے ان کے ساتھ اچھی طرح معاملہ کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی پہلو سے پڑوسیوں کے لیے باعث آزار نہ بننا بھی اسی حسن سلوک کا ایک حصہ ہے۔ جیسے ان کے گھر کے باہر اپنا کوڑا نہ پھینکنا، ان کا راستہ بند نہ کرنا، شوروغل سے ان کے آرام میں خلل نہ ڈالنا یا ان کی پرائیویسی میں دخل اندازی نہ کرنا وغیرہ۔
پڑوسیوں کی تیسری قسم وہ ہے جو آپ کے گھر کے ساتھ مستقل تو نہیں رہتے مگر کسی نہ کسی پہلو سے انسان کی قربت اور ہم نشینی اختیار کرتے ہیں۔ دفتر میں ساتھ کام کرنے والے، رفیق سفر، کاروبار، تجارت یا حصول تعلیم میں شریک کار لوگ سب اس زمرے میں شامل ہیں۔ کسی مشترکہ مفاد یا ضرورت کی بنا پر یہ لوگ بعض اوقات اتنے قریب آجاتے ہیں کہ رشتہ دار اور پڑوسیوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ نہ بھی ہو تو وقت کی کسی خاص مدت میں ان کی قربت کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ ہوتی ہے اور ان کے اچھے برے سلوک کا انسان پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے اس گروہ کو بھی خاص طور پر موضوع بنا کر انھیں اس فہرست میں شامل کیا ہے جن کے ساتھ حسن سلوک کرنا بنیادی دینی تقاضا ہے۔
ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک
قرآن مجید نے ماتحتوں کے ضمن میں ان لونڈی غلاموں کا ذکر کیا جن کی زندگی زمانہ قدیم میں مکمل طور پر اپنے مالکوں کے رحم و کرم پر ہوتی تھی۔ قرآن مجید نے ان کے ساتھ حسن سلوک کو ایک دینی مطالبہ قرار دیا ہے۔ تاہم غلامی کے ادارے کو برقرار رکھنا قرآن مجید کے پیش نظر نہ تھا بلکہ یہ زمانے کا وہ جبر تھا جو دین اسلام کو ورثے میں ملا تھا۔ دین نے غلاموں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے اور ایک آخری چیز اس ضمن میں یہ بیان کی کہ جو لونڈی یا غلام اپنے مالک سے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہو وہ مکاتبت کے ذریعے سے اپنے مالک سے اپنی ایک قیمت طے کرلے جسے ادا کرنے کے بعد اسے آزادی حاصل ہوجاتی تھی۔ اس کے علاوہ غلاموں کو آزاد کرانا جو ان کے ساتھ کی گئی سب سے بڑی بھلائی تھی، اس پر بھی قرآن مجید میں بار بار لوگوں کو ابھارا گیا اور اسے ایک بڑی نیکی قرار دیا گیا۔
دور جدید میں جب غلامی کا یہ ادارہ ختم ہوگیا ہے تب بھی حسن سلوک کا یہ حکم اسی طرح باقی ہے اور اب اس کا مصداق وہ ملازمین، ماتحت اور زیردست لوگ ہیں جو کچھ پیسوں کے عوض اپنی خدمات ہمیں پیش کر دیتے ہیں۔ دفتر، دکان اور کارخانے کے ملازمین، ذاتی خدام اور گھریلو کاموں کے لیے رکھے گئے ملازمین سب اس میں شامل ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ان کیساتھ حسن سلوک، رحم اور درگزر کا معاملہ کیا جائے۔ ان پر احسان کیا جائے اور زبان اور رویے سے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ اور ان سب امورکے ساتھ ان کی عزت نفس کو پامال کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
قرآن مجید نے خاندان کے ادارے میں شوہروں کو گھر کا سربراہ بنایا ہے اور بیویوں کو ان سے موافقت کرنے اور ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ ایسے میں اس نے مردوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ دستور کے مطابق بھلے طریقے سے ان کے ساتھ معاملہ کریں۔ وہ اگر اپنی کسی عادت کی وجہ سے ناپسند بھی ہوں تب بھی ان کے ساتھ ایسے ہی معاملہ کریں جیسے ان کے ذریعے سے انھیں بہت خیر مل رہا ہو ۔قرآن مجید نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ اصلاً تو یہ تعلق وہ ہے جس میں خدا کی طرف سے محبت اور رحمت رکھ دی گئی ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے اس تعلق کا تو ذکر ہی کیا جس میں دونوں محبت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوں، قرآن مجید کا مطالبہ تو یہ ہے کہ اگر انسان ناپسندیدگی کے عالم میں بیوی کو چھوڑ رہا ہو تب بھی احسان کا رویہ اختیار کرے اور اس فضیلت کو نہ بھولے جو اللہ نے اسے عطا کی ہے۔ وہ عورت کو اپنی طرف سے کچھ دے دلا کر رخصت کرے اور یہ اس عورت پر کوئی احسان نہیں بلکہ یہ محسنین پر اللہ کا حق ہے۔
قرآنی بیانات
”اور تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھیراؤ، والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور رشتہ دار پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور ہم نشینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔ اِسی طرح مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اتراتے اور اپنی بڑائی پر فخر کرتے ہیں۔“،(النساء36:4)
”اور تمھارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت چاہیں، اُن سے مکاتبت کرلو، اگر تم اُن میں بہتری پاؤ (تاکہ وہ بھی پاکیزگی میں آگے بڑھیں)۔ اور (اِس کے لیے اگر ضرورت ہو تو مسلمانو)، اُنھیں اُس مال میں سے دو جو اللہ نے تمھیں عطا فرمایا ہے۔۔“،(النور33:24)
”(نیکی کی بلند چڑھائی کیا ہے؟) یہی کہ گردن چھڑائی جائے“، (البلد13:90)
”اور اگر تم عورتوں کو اِس صورت میں طلاق دو کہ تم نے اُنھیں ہاتھ نہیں لگایا یا اُن کا مہر مقرر نہیں کیا تو مہر کے معاملے میں تم پر کچھ گناہ نہیں ہے، مگر یہ تو لازماً ہونا چاہیے کہ دستور کے مطابق اُنھیں کچھ سامان زندگی دے کر رخصت کرو، اچھی حالت والے اپنی حالت کے مطابق اور غریب اپنی حالت کے مطابق۔ یہ حق ہے اُن پر جو احسان کا رویہ اختیار کرنے والے ہوں۔“،(البقرہ 236:2)
”لیکن تم نے اگر طلاق تو اُنھیں ہاتھ لگانے سے پہلے دی، مگر اُن کا مہر مقرر کرچکے ہو تو مقررہ مہر کا نصف اُنھیں دینا ہوگا، الاّ یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا وہ چھوڑ دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔ اور یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے کہ تم مرد اپنا حق چھوڑ دو اور اپنے درمیان کی فضیلت نہ بھولو۔ بے شک اللہ دیکھ رہا ہے اُس کو جو تم کر رہے ہو۔“،(البقرہ237:2)
”ایمان والو، تمھارے لیے جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ (نکاح کر لینے کے بعد) جو کچھ تم نے اُن کو دیا ہے، اُس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے اُنھیں تنگ کرو۔ ہاں، اِس صورت میں کہ وہ کسی کھلی ہوئی بدکاری کا ارتکاب کریں۔ اور اُن سے اچھا برتاؤ کرو، اِس لیے کہ اگر تم اُنھیں ناپسند کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو اور اللہ اُسی میں تمھارے لیے بہت کچھ بہتری پیدا کر دے۔“،(النساء19:4)
”اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے تمھاری ہی جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور اِس کے لیے اُس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔“،(الروم21:30)
”مرد عورتوں کے سربراہ بنائے گئے ہیں، اِس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پھر جو نیک عورتیں ہیں، وہ (اپنے شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں، اِس بنا پر کہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔“،(النساء34:4)