مضامین قرآن (61) اخلاقی مطالبات : حقوق العباد ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید اپنی دعوت کو قبول کرنے والوں کے سامنے جو مطالبات رکھتا ہے ان کا مرکزی نقطہ تزکیہ نفس ہے۔ اس تزکیہ نفس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو شریعت عطافرمائی ہے جو زندگی کے ان میدانوں میں انسانوں کی رہنمائی کرتی ہے جہاں وہ اپنی عقل اور فطرت کی بنیاد پر کوئی حتمی بات کہہ سکتے ہیں اور نہ عملی طور پر کوئی حد بندی کرسکتے ہیں۔ تاہم اس قانون شریعت سے قبل خود انسانی فطرت میں ایک ایسا احساس رکھ دیا گیا ہے جو انسانوں کی رہنمائی اس راستے کی طرف کرتا ہے جو ان کے نفوس میں پاکیزگی پیدا کرتا ہے۔ یہ خیر و شر کا وہ شعور ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر انسانوں کو اس راستے کی طرف بلاتا ہے جس میں انسانوں کے لیے خوبی اور پاکیزگی ہوتی ہے۔ اسی شعور کی بنیاد پر قرآن مجید انسانوں کے سامنے شریعت کے علاوہ وہ مطالبات بھی رکھتا ہے جنھیں ہم اخلاقی مطالبات کا نام دیتے ہیں۔
ان مطالبات کی پہلی قسم وہ ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ مضامین قرآن کے اس سلسلے میں ہم نے ابھی تک اللہ تعالیٰ کے حوالے سے عائد ہونے والے مطالبات کی تفصیل کی ہے۔ آج سے ہم اخلاقی مطالبات کی دوسری قسم یعنی سماج کے مختلف طبقات کے حوالے سے عائد ہونے والے مطالبات جنھیں عرف عام میں حقوق العباد کہا جاتا ہے، ان کی تفصیل کریں گے۔
حقوق العباد کے معاملے میں قرآن مجید کی رہنمائی کا طریقہ
حقوق العباد کے معاملے میں قرآن مجید نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ایک بڑا ہی فطری طریقہ اختیار کیا ہے جس کی دو بنیادی اساسات ہیں۔ پہلی اساس یہ ہے کہ قرآن مجید سماج کے ان طبقات کو لیتا ہے جن کے حقوق کی ادائیگی میں عام طور پر انسان محتاط نہیں ہوتے یا انسانی طبائع ان کی ادائیگی کی طرف مائل نہیں ہوتیں یا ان کے معاملے میں کوئی بڑا انحراف رونما ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن مجید والدین کے ساتھ حسن سلوک پر تو بہت زور دیتا ہے، مگر اولاد سے حسن سلوک پر کلام نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاد کے معاملے میں انسانوں کی غالب ترین اکثریت اپنی جبلی اور طبعی تقاضوں کی بنا پر پہلے ہی بہت حساس ہوتی ہے۔ لوگ اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں۔ ان کو مستقبل کا سرمایہ سمجھ کر ان پر ہر پہلو سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں کہ اولاد کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ لیکن والدین کے معاملے میں بیشتر لوگوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔
بوڑھے والدین اولاد پر ایک بوجھ ہوتے ہیں۔ اولاد میں سے ہر بچے کی یہ شعوری یا غیر شعوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ بوجھ اس کے بجائے کسی دوسرے بھائی بہن کو منتقل ہو جائے۔ والدین ان کے ہاں مقیم بھی ہوں تو بیشتر لوگ انھیں توجہ، وقت اور پیسہ دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ ان کی بیشتر توجہ کا مرکز اپنی بیوی بچے ہی رہتے ہیں۔ کسی کا رویہ اس کے برعکس ہو تب بھی بوڑھے والدین کا بوجھ اٹھانا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ ان کی خدمت، ان پر انفاق، ان کی بری بھلی باتیں سننا، ان کے بڑھاپے کی جھنجھلاہٹ کو برداشت کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اللہ تعالیٰ اولاد سے حسن سلوک پر زور دینے کے بجائے والدین کے حسن سلوک پر بار بار توجہ دلاتے ہیں۔ تاہم اگر کہیں کسی قسم کا انحراف پایا جائے جیسے عرب میں سے بعض لوگ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل کر دیتے تھے، تو قرآن نے اس پر بھی بھرپور توجہ دلائی ہے اور اسے کئی جگہ موضوع سخن بنایا ہے۔
چنانچہ سماج کے کمزور طبقات کے حقوق پر توجہ دلانا اور کسی فرد یا طبقہ کے حوالے سے کوئی انحراف یا افراط و تفریط پایا جائے تو اس پر متوجہ کرنا حقوق العباد کے ضمن میں انسانوں کی رہنمائی کا وہ پہلا طریقہ ہے جسے قرآن مجید نے اختیار کیا ہے۔ انسانوں کی رہنمائی کا دوسرا طریقہ یا دوسری اساس جو قرآن مجید نے اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ فرد کو ان اچھی اور بری خصوصیات کی طرف متوجہ کیا ہے جن کو دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے لوگ ملحوظ نہیں رکھتے یا جن کا لحاظ نہ رکھنے کی صورت میں دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے یا دوسروں کی جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچتا ہے۔ مثلاً قرآن نے جگہ جگہ عدل کا حکم دیا ہے اور ظلم سے روکا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے عہد و امانت کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ لوگ جب ان صفات کو اختیار کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں دوسروں کے ساتھ ان کا معاملہ مجموعی طور پر بہتر ہوتا چلا جاتا ہے اور دوسروں کی حق تلفی اور ان پر ظلم و زیادتی کی نوبت نہیں آتی۔
اس معاملے میں قرآن مجید نے مزید اہتمام یہ کیا ہے کہ کہیں تو ایک جامع اصطلاح استعمال کرکے ایک مجموعی مطلوب رویے کی طرف لوگوں کی رہنمائی کر دی ہے اور کبھی متعین طور پر ایک حکم دے کر ایک خاص رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ مثلاً کہیں صرف عدل کا حکم دیا ہے جیسے النحل (90:16) میں۔ عدل ایک مجموعی رویہ ہے کہ جو زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کرتا ہے۔ مگر قرآن نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ جب تم بولو توعدل کی بات کرو(الاانعام152:6)۔ بولتے وقت عدل کے اس متعین حکم کی وجہ یہ ہے کہ لوگ بولتے وقت ہی دوسروں کے متعلق سب سے بڑھ کے عدل سے ہٹتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں اجمال و تفصیل ہر دو طریقوں سے لوگوں کو اچھی اور بری اخلاقی صفات اور رویوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ قرآن حقوق العباد کو جس طرح بیان کرتا ہے اور اس کی تعلیمات کے نتیجے میں معاشرے میں کیسے خیر و فلاح عام ہوتی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی رہنمائی کا یہ طریقہ اگر واضح رہے تو ان بہت سے سوالات کا جواب مل جاتا ہے جو ذہنوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ نیز وہ عدم توازن بھی دور ہوجاتا ہے جو بعض نادان لوگوں کے قرآنی رہنمائی کو ناسمجھنے کی بنا پر پیدا ہوجاتا ہے۔ مثلاً بعض لوگ قرآن اور احادیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے احکام کو دیکھ کر والدین کی فرمانبرداری میں بیویوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ بیویوں کے معاملے میں عام طور پر لوگ پہلے ہی حساس ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کے مفادات اور خواہشات ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اس بنا پر وہ ویسے ہی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور کبھی نہ رکھیں تو ان کی ضرورت، مفاد اور خواہش انھیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو بااہتمام یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ مگراس خاموشی کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں حسن سلوک نہ کیا جائے یا ظلم و زیادتی کا معاملہ کیا جائے۔ قرآن مجید نے میاں بیوی کے اس رشتے کے حوالے سے اسی وقت کلام کیا ہے جب کسی تنازع کا اندیشہ تھا اور اسے ختم کرنا مقصود تھا۔ چنانچہ اس پس منظر منظر میں بیویوں کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیا گیا ہے (النساء19:4)، مگر یہ قرآنی تعلیمات کا کوئی مستقل موضوع نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان اس رشتے سے وابستہ مفادات کی بنا پر حسن سلوک سے ویسے ہی کام لیتے ہیں اور نہیں حسن سلوک نہیں کریں گے تو بیوی کے پاس علیحدگی کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اس بات کوسمجھنا اس باب میں قرآنی ہدایات کے فہم میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔