مضامین قرآن (55) اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساسات: محبت،شکر اور نصرت ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساسات: محبت،شکر اور نصرت
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساست میں پچھلی دفعہ ہم نے ایمان، یقین، اسلام اور قنوت پر بات کی تھی۔ ہم نے یہ دیکھا کہ ایمان اس حقیقت کے اعتراف کا نام ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق و مالک ہے۔ یہ ایمان ایک آبائی عقیدہ نہیں بلکہ اس سچائی کی دریافت کا نام ہے جس کی تائید میں پوری کائنات کھڑی ہے۔ یوں ایمان یقین کی منزل کا مسافر بن جاتا ہے۔ اس سفر کا زادِ راہ اپنے مالک کی فرمانبرداری اور اس کے احکام کی بجا آوری کا وہ جذبہ ہوتا ہے جس میں انسان خود کو اپنے رب کے حوالے کر دیتا اور اس کی بات ماننے کو مقصدِ زندگی بنا لیتا ہے تاکہ دنیا و آخرت میں وہ اپنے مالک کے سامنے سرخرو ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی ایک دوسری اساس محبت، شکر اور اس کے دین کی مدد و نصرت کا جذبہ ہے۔ اس پر آج ہم تفصیل سے بات کریں گے۔
محبت، شکر اور نصرت
انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو خود کو ایک مہربان ماں کی آغوش شفقت میں پاتا ہے۔ وہ ایک شفیق باپ کی گھنی چھاؤں میں پروان چڑھتا ہے۔ اپنے ارد گرد محبت اور رحمت نچھاور کرنے والے رشتے پاتا ہے۔ اپنی ہر ضرورت کی تکمیل کے تمام اسباب بلا سعی وجہد پاتا ہے۔ انسان جب شعور کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ انسان جس دنیا میں رہتا ہے وہاں زمین سے آسمان تک نعمتوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے۔ غذا پیدا کرنے والی زرخیر دھرتی ہے۔ بارش برسانے والا آسمان ہے۔ لمحہ لمحہ زندگی بخشنے اور باقی رکھنے والی شفاف فضا ہے۔ کام کے لیے روشن دن ہے۔ آرام کے لیے پرسکون رات ہے۔ ذوق جمال کی تسکین کے لیے کہیں سبزہ ہے تو کہیں فطرت کے رنگ ہیں۔ کہیں پرندوں کی چہچہاہٹ ہے تو کہیں پھولوں کی خوشبو ہے۔ آسمان کبھی چاند کی روشنی سے خود کو منور کرتا، کبھی سورج کی شفق کی ردا اوڑھتا اور کبھی تاروں کی چادر سے خود ڈھانک لیتا ہے۔
ایسے میں ایمان کی روشنی یہ بتاتی ہے کہ یہ سارے اہتمام کرنے والی ایک ہی ہستی ہے۔ اسے وجود دینے والی، شفیق والدین کی محبت میں اسے پروان پروان چڑھانے والی، زمین و آسمان میں نعمتوں کا دستر خوان بچھانے والی ایک ہی ہستی ہے۔ یہ اس کا خالق، اس کا مالک اور اس کا پروردگار ہے۔ یہ حقیقت جانتے ہی انسان کا دل اپنے مالک کی محبت سے بھر جاتا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں کوئی کسی کو بلامعاوضہ کچھ نہیں دیتا وہاں یہ انمول نعمتیں اتنی ارزاں اور اتنی کثرت سے دیکھ کر انسان اس عظیم رب کی شکر گزاری پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ وہ ہستی جس نے انسان کو سب کچھ دیا جس کی اسے ضرورت تھی۔ یہی محبت اور یہی شکر خدا سے تعلق کی وہ اساس ہے جو اگر نکل جائے تو پھر ایمان کی جگہ کفر لے لیتا ہے اور شکران نعمت کی جگہ کفران نعمت کا ظہور ہوتا ہے۔ لیکن یہ جذبہ اگر موجود ہو اور کماحقہ موجود ہو تو انسان بندگی کی معراج پالیتا ہے۔
خدا کی نعمت بھری اس دنیا میں ایک مومن کے لیے سب سے بڑی نعمت ہدایت کی نعمت ہوتی ہے جو دین کی شکل میں اسے محفوظ طریقے پر ملی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اس نعمت کو پاکر اسے اپنی زندگی بنا لیتا ہے۔ اور کسی موقع پر اگر دین کو مدد کی ضرورت ہو تو محبت کا جذبہ حمیت و حمایت میں ڈھل جاتا ہے۔ پھر انسان اپنی ہر ممکن کوشش کرکے اپنے وقت، پیسہ، صلاحیت اور حتیٰ کہ اپنی زندگی بھی نصرت دین کے لیے وقف کر دیتا ہے اور اس راستے میں جان تک دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ محبت اور شکر گزاری کے ساتھ نصرت دین کا یہ جذبہ خدا سے تعلق کی وہ اساس ہے جو نہ صرف ایمان کا اعلیٰ ترین اظہار ہے بلکہ روز قیامت انسان کو خدا کی بہترین نعمتوں کا امیدوار بھی بنا دیتا ہے۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ محبت، شکر گزاری اور نصرت دین جس شخص کی زندگی میں نہیں ہے، اس کا ایمان درحقیقت ابھی وہ ایمان بنا ہی نہیں جس کا مطالبہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔
قرآنی بیانات
’’جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھنے والے ہوتے ہیں۔‘‘،(البقرہ 165:2)
’’ایمان والو، تم میں سے جو اپنے دین سے پھرے گا، (اللہ کو اُس کی کچھ پروا نہیں ہے)، اِس لیے کہ اللہ عنقریب ایسے لوگ اٹھا دے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، مسلمانوں کے لیے نرم اور اِن منکروں کے مقابل میں نہایت سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور (اِس میں) کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ (اپنے قانون اور اپنی حکمت کے مطابق) جس کو چاہے گا، عطا فرمائے گا۔ اللہ بڑی وسعت رکھنے والا ہے، وہ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘،(المائدہ54:5)
’’لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرے شکر گزار بن کر رہو، میری ناشکری نہ کرو۔‘‘،(البقرہ 152:2)
’’اور تمھیں ہر چیز میں سے جو تم نے مانگی، عطا فرمایا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو نہیں گن سکتے۔ (اِس پر بھی خدا کے شریک ٹھیراتے ہو)؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور بڑا ناشکرا ہے۔‘‘، (ابراہیم 34:14)
’’اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میری سزا بھی بڑی سخت ہے۔ موسیٰ نے کہا کہ اگر تم ناشکری کرو اور زمین کے سارے لوگ بھی (اِسی طرح) نا شکرے ہو جائیں (تو خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے)، اِس لیے کہ اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔‘‘،(ابراہیم 7-8: 14)
’’پھر جب سلیمان نے اُس کو اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو پکار اٹھا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزار ہوتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے (تو یہ بھی اُسی کا نقصان ہے)، اِس لیے کہ میرا پروردگار بے نیاز ہے اور وہ بڑا کرم فرمانے والا بھی ہے۔‘‘، (النمل27:40)
’’(خدا کے بندو)، اگر تم شکر گزاری اختیار کرو اور سچے مومن بن کر رہو تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں عذاب دے۔ اللہ تو بڑا قبول کرنے والا اور (ہر چیز کا) جاننے والا ہے۔‘‘، (النساء147:4)
’’اگر تم ناشکری کرو گے تو (اللہ کا کچھ نہیں بگاڑو گے)، اِس لیے کہ اللہ تم سے بے نیاز ہے۔ ہاں، وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ اور اگر شکر گزار ہو گے تو اُس کو وہ تمھارے لیے پسند کرے گا۔ (یاد رکھو، قیامت کے دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمھاری واپسی تمھارے پروردگار ہی کی طرف ہوگی، تو جو کچھ تم کرتے رہے ہو، وہ تمھیں بتا دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تو دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔‘‘،(الزمر7:39)
’’ایمان والو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا: کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے؟ حواریوں نے جواب دیا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ اپنے کفر پر جما رہا۔ پھر ہم نے ایمان والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی تو وہی غالب ہو کر رہے۔‘‘،(الصف14:61)
’’ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور (اِن دشمنوں کے مقابلے میں) تمھارے پاؤں جما دے گا۔‘‘،(محمد7:47)