جنت کی وراثت ۔ ابویحییٰ
انسانی فطرت میں حسن وجمال، رنگ و خوشبو، لذت و سرور اور ابدیت و عافیت کی ختم نہ ہونے والی پیاس پائی جاتی ہے۔ مگر انسان کا مقدر یہ ہے کہ ساری زندگی اپنی پیاس بجھانے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے، مگر اس جہان فانی کی کوئی چیز بھی اس کی پیاس بجھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ وہ ہوس کا اسیر ہو کر بحر نعمت کا پورا سمندر بھی اپنے اندر انڈیل لے، تب بھی سدا کا یہ پیاسا، آخر کار بنجر صحرا کی تپتی زمین جیسا پیاسا ہی رہتا ہے۔
انسان کے اضطراب مسلسل کی کہانی دو مزید المیے جنم دیتی ہے۔ ایک وہ جس میں انسان اس دنیا کو اپنا مقصود محض بنا کر اور ہر جائز و ناجائز راستے کو اختیار کر کے اپنی تسکین کے سامان ڈھونڈتا ہے۔ وہ اس راہ میں ہر ظلم اور ہر زیادتی کو روا سمجھتا ہے۔ ہر بند دروازے کو کھولنے اور اندھی گلی کو ٹٹولنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر آخر کار وہ اس حال میں مرتا ہے کہ ازلی پیاس کے ساتھ ابدی بربادی کو اپنا مقدر بنا کر رخصت ہوتا ہے۔
دوسرا المیہ ترک دنیا کی وہ داستان جنم دیتا ہے جس کے آثار مسیحی رہبانیت اور بدھ مت کی تاریخ میں جابجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ترک لذت کی یہ غیر فطری اور غیر عقلی راہ بھی انسان کو اتنا ہی مایوس کرتی ہے جتنا پہلی راہ کے مسافر نامراد رہتے ہیں۔
ان دونوں راستوں کے برعکس قرآن مجید انسان کے سامنے جنت کی وہ ابدی بادشاہی رکھتا ہے جہاں انسان کی ہر پیاس آخر کار اپنی تسکین پا ہی لے گی۔ وہ انسان کو فطری حد تک دنیا سے متمتع ہونے کی تلقین بھی کرتا ہے اور اس کی راہ میں قدم قدم پر وہ رکاوٹیں بھی رکھتا ہے جو اسے حرام کی وادیوں ہی سے نہیں روکتیں بلکہ اس کی پیاس کو تونس بننے کی اذیت سے روکتی ہیں۔ یہی راستہ فلاح کا ہے۔ دنیا کی بھی اور آخرت کی بھی۔