مضامین قرآن (25) دلائل نبوت و رسالت: قرآن مجید کا معجزہ ۔ ابو یحییٰ
دلائل نبوت و رسالت: قرآن مجید کا معجزہ
قرآنِ مجید کے مضامین کے ضمن میں ہم دین کی بنیادی دعوت کے دلائل کا تفصیلی بیان کر رہے ہیں۔ ابھی تک ہم وجود باری تعالیٰ، توحید باری تعالیٰ اور آخرت کے دلائل کا مطالعہ کر چکے ہیں۔ انشاء اللہ اب ہم اللہ رب العزت کی توفیق سے نبوت و رسالت کے دلائل کے بیان کا آغازکر رہے ہیں۔ جس طرح قرآن مجید سے ہم نے سمجھا ہے، اللہ تعالیٰ نے سات مختلف پہلوؤں سے نبوت و رسالت کو علمی اور عقلی سطح پر ایک ثابت شدہ حقیقت اور سچائی کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان میں سے پہلی دلیل یعنی قرآن مجید کا زبان و بیان کے پہلو سے معجزہ ہونے کی تفصیل آج ہم بیان کریں گے۔
تاہم اس سے قبل ایک چیزکی وضاحت ضروری ہے ۔ وہ یہ کہ رسالت و نبوت کا انسٹی ٹیوشن اب تاقیامت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہ ایمان ہی پر منحصر ہے اس لیے ہم دلائل نبوت، رسالت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پس منظر میں بیان کر رہے ہیں ۔ گرچہ قرآن میں سابقہ انبیا کی دعوت کے ساتھ ان کی سچائی کے دلائل بھی زیر بحث آ جاتے ہیں۔ مگر انبیائے سابقہ کی نبوت کے دلائل اِن دلائل سے مختلف نہیں ہوتے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت و رسالت کے اثبات میں پیش کئے تھے، اس لیے اُن کا بیان اِنھی کے ذیل میں ضمنی طور پر شامل ہو گا۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سلسلہ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں، اور آپ اپنے سے پہلے ہر نبی کی تصدیق کرتے ہیں، اس لیے آپ کو ماننا دراصل اس پورے سلسلہ کو ماننے کے مترادف ہے ۔ اس لیے دلائل کے ضمن میں ساری بحث صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے اثبات کے حوالے ہی سے ہو گی۔
انبیائے کرام کی بشریت اور مخاطبین کا کفر
انبیائے کرام کے متعلق قرآن مجید بالکل واضح ہے اور پوری مذہبی روایت اس کی مکمل تصدیق کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد و ہدایت اور ان تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا وہ سب کے سب انسان تھے۔ انبیا علیھم السلام اپنے کردار و اخلاق میں چاہے کتنے ہی غیر معمولی کیوں نہ ہو، معاصرین کے لیے وہ بہرحال اپنے جیسے عام انسان ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ کھانے اور پینے والے انسان، ماں باپ کے بطن سے انسانی جسم لے کر پیدا ہونے والے انسان، بازاروں میں چلنے پھرنے والے انسان، بیوی بچے اور خاندان کے تعلقات میں گھرے ہوئے انسان، انسانی احتیاج اور عوارض کا شکار ہوجانے والے انسان، عام لوگوں کی طرح جذبات و احساسات رکھنے والے انسان۔
نبی اور رسول دعوت کے ساتھ مخاطبین کے لیے امتحان کی حیثیت بھی رکھتا ہے جس کو ماننے نہ ماننے پر ان کی نجات موقوف ہوتی ہے، اس لیے عام طور پر وہ ایسے کسی ظاہری وصف سے دور رکھے جاتے ہیں ، جن کی طرف لوگ خود ہی مائل ہوجائیں ۔ چنانچہ ایک نئی قوم میں جہاں نبی پہلی دفعہ آ رہا ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ اسے کسی بادشاہ، سردار، سرمایہ دار یا مذہبی پیشوا بنا کر نہیں بھیجتے۔ کیونکہ یہی وہ خصائص ہیں جو معاشرے کے ممتاز لوگوں کوعام لوگوں سے بلند کرتے ہیں اور عام لوگ ان صفات کی حامل شخصیات کی پیروی شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کوئی بے حیثیت شخص ہوتا ہے ۔ ہر نبی اپنی سیرت و شخصیت ، ذاتی اور خاندانی وجاہت، مالی حیثیت ، عزت و شرافت اور سیرت و کردار میں ایک ممتاز اور بے مثل شخصیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اسی لحاظ سے معاشرے میں اس کا مقام و مرتبہ بھی ہوتا ہے ۔ تاہم منصب وجاہ اور مال و دولت کی فراوانی کے لحاظ سے وہ غیر معمولی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ امتحان اس لیے برپا کیا جاتا ہے کہ لوگ نبی کی دعوت سے متاثر ہوں نہ کہ اس کے مقام و مرتبے سے ۔
مزید یہ کہ عام طور پر نبوت و رسالت کے منصب سے کسی ہستی کو اس وقت متصف کیا جاتا ہے، جب وہ معاشرتی اعتبار سے بہت کم عمر ہوتا ہے ۔ یہ عمر چالیس برس کی ہوتی ہے ۔ قرآن مجید کے مطابق اور عام انسانی معاشرے کے لحاظ سے یہ ایک بہترین عمر ہوتی ہے جب انسان اپنی پختگی کی عمر کو پہنچ چکا ہوتا ہے اور اس کے باوجود اس کے جسمانی اور ذہنی قویٰ پوری طرح فعال ہوتے ہیں اور آئندہ کئی برس تک فعال رہنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تاہم دنیوی اور معاشرتی اعتبار سے عام طور پرجو لوگ سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں وہ عمر کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں یا اس سے بھی زیادہ سن رسیدہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں معاشرے کی لیڈرشپ کو یہ نبی ایک عام انسان ہونے کے ساتھ عمر اور سماجی مرتبے میں عام طور پر اپنے سے بہت کمتر لگتا تھا۔
پھر نبی معاشرے کی مسلمہ روایات اور اقدار جو عام طور پر شرک پر مبنی ہوا کرتی تھیں، ان کے خلاف ایک دعوت لے کر اٹھتا ہے۔ وہ ایک مختلف، اجنبی بلکہ مخالفانہ نوعیت کی دعوت ہوتی ہے جسے قبول کرنے کے نتیجے میں ان کا سارا سیاسی، سماجی اور مذہبی ڈھانچہ درہم برہم ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ آخری اور اہم ترین بات یہ ہوتی ہے کہ اس دعوت کو قبول کرنے کے نتیجے میں اس ساری لیڈرشپ کو اپنے مقام و مرتبے کو نظر انداز کر کے اور افکار و نظریات کو رد کر کے نبی کی سیادت و قیادت قبول کرنا ہوتی ہے۔ یہ ساری باتیں نفسیاتی طور پر ایک ناقابل عبور رکاوٹ بن جاتی ہیں اور انبیاء کے مخاطبین پہلے مرحلے ہی میں ان کی دعوت رد کر دیتے ہیں ۔
معجزے کی ضرورت
تاہم یہ دعوت علم وعقل کے جن مضبوط دلائل پر مبنی ہوتی ہے، وہ اپنی جگہ ناقابل تردید ہوتے ہیں۔ ان دلائل کی تفصیل ہم پیچھے توحید وآخرت کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں۔ یہ دلائل اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ معاشرے کے بلند حوصلہ لوگ، کمزور اور نوجوان طبقات جوق در جوق اس دعوت کو قبول کرنے لگتے ہیں۔ مخالفین لاکھ زور لگالیں وہ علم و عقل کے لحاظ سے انبیاء کرام کی دعوت کو کسی طور رد نہیں کرپاتے ۔ ایسے میں اپنی اخلاقی برتری قائم رکھنے کا ان کے پاس ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے کہ انبیا علیھم السلام سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنے من جانب اللہ ہونے کا کھلا اور اعلانیہ ثبوت کسی خارق العادت واقعے جسے عام طورپر معجزہ کہا جاتا ہے، کی شکل میں پیش کریں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جس اسکیم کے تحت دنیا میں بھیجا ہے وہ بن دیکھے ایمان لانے کے امتحان پر مبنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی کسی معجزے کی شکل میں کھلی مداخلت اس اسکیم کو باطل کرنے کے ہم معنی ہوتی ہے ۔ چنانچہ اکثر انبیا علیھم السلام کو اسی بنیاد پر معجزات نہیں دیے جاتے ۔ لیکن اگر قوم کے مسلسل سوال اورمطالبہ پر کوئی خاص معجزہ دیا جاتا ہے تو پھر اس کے بعد کفرکی پاداش میں قوم کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی نمایاں مثال حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے جس کی فرمائش پر انھیں معجزانہ طریقے پر ایک اونٹنی کا معجزہ دیا گیا اور یہ بتا دیا گیا کہ اس کوہاتھ لگانے کی صورت میں ان کو ختم کر دیا جائے گا۔
معجزے کی دو قسمیں
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ معجزہ کسی نبی یا رسول کی دعوت کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہوتا۔ تاہم اس کے باوجود انبیا علھیم السلام کی سیرت میں اگر معجزات نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ قوم اس کے بغیر مان کر ہی نہیں دیتی۔ چنانچہ اتمام حجت کے لیے آخرکار ان کی فرمائش پر رسولوں کو معجزات عطا کیے جاتے ہیں ۔ معجزے عطا کیے جانے کی ایک دوسری ضرورت اس پہلو سے ہوتی ہے کہ جب انبیاء ورسل کے مخاطبین کچھ ایسے لوگ ہوں جن کے بارے میں اندیشہ یہ ہو کہ یہ لوگ معجزہ دیکھے بغیر کوئی بات سننے پر تیار ہی نہیں ہوں گے۔ ایسے معجزات اتمام حجت کے لیے نہیں دیے جاتے بلکہ ان کی نوعیت نبوت و رسالت کے ایک ایسے ثبوت کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مخاطبین نبی کی بات سننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور پہلے مرحلے ہی پر رسول پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کی ایک بڑی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے جن کو اپنے دور کے جابر حکمران فرعون کے مقابلے میں بھیجا گیا تھا۔ چنانچہ ان کو یدبیضا اور عصا کے سانپ میں بدل جانے کا معجزہ دیا گیا جو ابتداء ہی سے ان کے من جانب اللہ ہونے کا نشان تھا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ: قرآن مجید
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کفار کی بار بار فرمائش کے باوجود پہلی نوعیت کا کوئی معجزہ نہیں عطا کیا تھا۔ کیونکہ جنھوں نے نہیں ماننا تھا وہ معجزہ دیکھ کر بھی نہیں مانتے، مگر اس کی پاداش میں قوم کی ہلاکت کی نوبت آ جاتی جو منشائے الٰہی نہ تھی۔ آپ کو دیا جانے والا معجزہ دوسری نوعیت کا تھا۔ یعنی حضرت موسیٰ کی طرح جنھیں ابتدائے رسالت میں معجزہ دیا گیا آ پ کو بھی ابتدا ہی سے ایک ایسے معجزے سے نوازا گیا جس کا جواب قریش آخری وقت تک نہ لا سکے ۔ یہ معجزہ قرآن مجید کی زبان و بیان کا معجزہ تھا۔
اہل عرب کے متعلق تاریخی طور پر معلوم ہے کہ ان کے ہاں شعر وخطابت کا بڑا غیر معمولی ذوق تھا۔ بڑے بڑے قادر الکلام شعرا اور خطیب وہاں ہر طرف اپنے جوہر دکھاتے اور لوگوں سے داد و تحسین وصول کرتے ۔ یہ ان کے ذوق جمال کی تسکین، قبائلی مفاخرت کے اظہار، تاریخی و تمدنی سرمائے کے حفظ و بیان کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ وہاں ہر مرد و زن، آزاد و غلام کو شعر و سخن کا ذوق تھا۔ وہ شعر کہتے تھے اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے تھے، اور اس کے ماہرین کو اپنے سر پر بٹھاتے اور ان کے کلام کو بطور اعزازکعبہ کی دیواروں پر لٹکاتے تھے۔ ان کا کلام زندگی کے ہر شعبے کو محیط تھا۔ اخلاقی بیانات، قبائلی مفاخرت، رزمیہ داستانیں ، تاریخ کے واقعات، قوم کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ داری، حسن و عشق کا بیان، فطرت کی عکاسی غرض ان کا شعر اور ان کا خطبہ زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا اور ہر طبقہ میں اس کے ماہرین قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بلکہ ان کے غیر معمولی شعراء کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ ان کو جن یہ کلام الہام کرتے ہیں ۔
ایسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا اور توحید و آخرت پر مبنی اپنی دعوت کو پیش کیا۔ وہ سارے مسائل جن کا ذکراوپر ہم نے کیا، ان کی بنیاد پر قریش کی لیڈرشپ نے اس دعوت کو ابتداء ہی میں رد کر دیا۔ تاہم یہ دعوت عام لوگوں میں تیزی کے ساتھ اپنی جگہ بنانے لگی۔ اس قبولیت میں جہاں دعوت حق کے وہ عقلی و فطری مقدمات تھے جن کو ہم دلائل قرآن کے نام سے بیان کر رہیں، وہیں خود قرآن مجید کا طرز و آہنگ اورحسن ادا اس میں بنیادی کردار ادا کر رہے تھے۔ یہ کلام جو نہ نثر نہ نظم، نہ شعر تھا نہ نغمہ مگر اپنے اندر کلام کے حسن کی ہر خوبی کو لیے ہوئے تھا۔ جو سنتا اس سے متاثر ہوجاتا۔ جس کے کانوں میں یہ آواز پہنچ جاتی، اس کے قدموں کی زنجیر بن جاتی۔ جو شخص اس کلام کو پاتا اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ یہ کلام کسی اجنبی زبان میں نہ تھا۔ یہ اسی زبان میں تھا جسے قریش بولتے تھے۔ وہی الفاظ اس کلام کوترتیب دے رہے تھے جو قریش کا روز مرہ اور محاورہ تھے۔ مگر اسلوب کی ندرت، زبان کی فصاحت، مدعا کی بلاغت، لہجے کی چاشنی اور مضمون کی ادائیگی میں جو جو موسیقیت، ادبیت اور مقصدیت بیک وقت موجود ہیں، انھوں نے اس کو زبان و بیان کا ایک لافانی معجزہ بنادیا تھا۔
اسی معجزانہ حیثیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عربوں کے سامنے پیش کیا اور یہ چیلنج دیا کہ تم سمجھتے ہو کہ تمھارے یہ صاحب ہم پر اپنی طرف سے جھوٹ گڑھ رہے ہیں تو تم بھی اس کلام کی مانند بنا کر لے آؤ۔ پورا کلام نہ سہی دس سورتیں بنالو۔ یہ زیادہ ہیں تو ایک سورت ہی اس جیسی لے آؤ۔ یہ چیلنج عربیت سے ناواقف اور شعر و ادب سے بے ذوق لوگوں کو نہیں دیا گیا بلکہ ان کو دیا گیا زبان جن کا سرمایہ افتخار تھی اور شعر جن کا ذوق و جنوں تھا۔ صاحب قرآن کی تردید کرنے، ان کو جھوٹا ثابت کرنے اوران کی دعوت کی اخلاقی حیثیت ختم کرنے کا یہ آسان ترین نسخہ تھا۔ مگر قریش نے ہر طرح کی مخالفت کی، الزام و بہتان لگائے، ظلم و تشدد کیے، ملک و وطن چھوڑنے پر لوگوں کو مجبور کیا، جنگ و جدال کو مسلط کیا، مگر قرآن جیسی ایک سورت بنا کر لانے کی کسی کوشش کا کوئی تذکرہ کہیں نہیں ملتا۔ بلکہ عرب کے سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک شاعر لبید جن کا شمار شعرائے سبع معلقہ میں ہوتا ہے یعنی جن کے کلام کی عظمت کے اعتراف میں اسے کعبہ کی دیوار پر لٹکایا گیا۔ اور جن کے ایک شعر پر فرذوق جیسا شاعر سجدہ ریز ہو گیا اس کلام کی عظمت کے سامنے اس طرح بے زبان ہوئے کہ جب حضرت عمر نے ان سے شعر سنانے کی فرمائش کی تو بول اٹھے کہ بقرہ اور آل عمران کے بعد کیا شعر کہوں۔ یہ قرآن کی عظمت کا اعتراف تھا جو اس دور کے سب سے بڑے شاعر نے عرب کی پوری شعری اور ادبی روایت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا۔
قرآن کا یہی پہلو اس کا وہ معجزہ تھا جس نے قرآن مجید کے ابتدائی مخالفین یعنی قریش مکہ کو لاجواب کر دیا تھا۔ یہی آ پ کی سچائی اور من جانب اللہ ہونے کا وہ ثبوت ہے جس کا اقرار قریش نے جواب نہ دے کر کر دیا۔
ایک سوال
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم کے بعض لوگوں نے بھی اور آج بھی عربی زبان سے کچھ شد بد رکھنے والے لوگوں نے ردیف و قافیہ کی پابندی کرتے ہوئے کچھ سخن سازی کر کے یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ قرآن جیسا کلام ہے۔ تاہم یہ احمق اور غبی قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ردیف و قافیہ کی پابندی کرنے سے اعلیٰ کلام وجود میں آ جاتا ہے۔ تاہم یہ ایسی بے وقوفی کی بات ہے کہ کبھی ماضی میں کسی نے ایسی کسی بات کو سنجیدگی سے سننے کی کوشش کی ہے نہ آج کوئی سنجیدہ آدمی ایسی کسی بے ہودگی پر توجہ دینے کی کوئی زحمت گوارا کرتا ہے ۔ تاہم عام لوگوں کے لیے ہم صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ یہ کام کرنا اتنا ہی آسان ہوتا تو دنیا میں کسی قوم یا فرد کو صاحب قرآن سے ابوجہل اور ابو لہب سے زیادہ دشمنی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قرآن اور صاحب قرآن نے ان کے لیے موت اور زندگی کا مسئلہ پیدا کر دیا تھا۔ یہ ان کی موت اور زندگی کا مسئلہ بھی تھا اور ان کے مذہب اور روایت کی موت و زندگی کا مسئلہ بھی تھا۔ پھر ان کو یہ چیلنج ایک ایسے دور میں دیا گیا جب مسلمان مادی طور پر انتہائی کمزور تھے۔ ان کا کل سرمایہ ان کی اخلاقی حیثیت تھی۔ ایسے میں کوئی جھوٹا نبی اتنا بڑا چیلنج نہیں دے سکتا کہ اس جیسا کلام بنا کر لے آؤ۔ اور اگر وہ سچے نہ ہوتے تو سوال یہ ہے کہ پھر قریش کو کس نے مجبور کیا تھا کہ جو بے ہودہ قسم کی تک بندی بعد کے کچھ احمقوں کو سوجھی ، وہ کیوں نہ کر دیتے ۔ بات صرف یہ تھی کہ وہ ایسا کوئی کام کرتے تو عرب اور خاص کر قریش کا ہر شخص پکار اٹھتا کہ یہ قرآن کے مقابلے کا کلام نہیں ۔ چنانچہ قرآن کا دعویٰ مکمل طور پر سچا ثابت ہوجاتا ۔ چنانچہ قریش نے آپ کو جھوٹا کہا، جادوگر کہا، کاہن کہا، مگر اس چیلنچ کا جواب دینے کی کوشش کسی نے نہ کی۔ قرآن مجید کی سچائی کی یہ دلیل اصلاً قریش کے زبان دانوں اور عربیت کے ادا شناسوں ہی کے سامنے پیش کی گئی تھی۔ ان کے پاس اعتراف عجز کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ جب اس چیلنج کے اصل مخاطبین ہی اس کا جواب نہ دے سکے تو کسی اور کے جواب کی نہ ضرورت ہے اور نہ اہمیت۔ ضرورت اس لیے نہیں کہ رسالت کی سچائی کی یہ دلیل دنیا بھر کو نہیں عربوں کو دی گئی تھی۔ اور اہمیت اس لیے نہیں کہ اصل زبان بولنے والے جواب نہ لا سکے تو کسی اور کی کیا وقعت کہ وہ قرآن کا جواب پیش کرسکے۔ زبان و بیان کے پہلو سے قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی اس بحث کو ہم قرآن کے ایک معاصر، مخالف، عربی زبان کے ناقد ولید بن مغیرہ کی گواہی پر ختم کرتے ہیں ۔اس گواہی کے بعد کسی مخالف کے اعتراض اور کسی معاند کی تنقید کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
’’بخدا ، تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھ کر نہ شعر سے واقف ہے نہ رجز اور قصیدہ سے اور نہ جنوں کے الہام سے ۔ خدا کی قسم ، یہ کلام جو اِس شخص کی زبان پر جاری ہے ، اِن میں سے کسی چیز سے مشابہ نہیں ہے ۔ بخدا ، اِس کلام میں بڑی حلاوت اور اِس پر بڑی رونق ہے ۔ اِس کی شاخیں ثمر بار ہیں ، اِس کی جڑیں شاداب ہیں ، یہ لازماً غالب ہو گا، اِس پر کوئی چیز غلبہ نہ پا سکے گی اور یہ اپنے نیچے ہر چیز کو توڑ ڈالے گا۔‘‘ ، (السیرۃالنبویہ ، ابن کثیر 499/1)
قرآنی بیانات
’’کہہ دو کہ میں توبس تمہاری ہی طرح ایک بشر ہوں۔ مجھ پر وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے۔ پس جو اپنے رب کی ملاقات کا متوقع ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘ (الکہف 18: 110 )
’’اگر اس قرآن کو ہم کسی پہاڑ پر اتارتے تو تم دیکھتے کہ وہ خشیت الٰہی سے پست اور پاش پاش ہو جاتا اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ سوچیں ۔‘‘ (حشر 59: 21)
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ اس (قرآن)کو اس نے خود ہی گھڑا ہے ! بلکہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے ۔ پس یہ اس کے مانند کوئی کلام لائیں ، اگر یہ سچے ہیں ۔‘‘ (الطور 52: 34-33)
’’اور یہ قرآن ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ سے پرے پرے ہی گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تصدیق ہے ان پیشین گوئیوں کی جو اس کے پہلے سے موجود ہیں اور کتاب کی تفصیل ہے ۔ اس کے خداوند عالم کی طرف سے ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے ۔
کیا وہ کہتے ہیں کہ اس (قرآن) کو اس نے گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو تو تم لاؤ اس کے مانند کوئی سورہ اور بلا لو اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکو، اگر تم سچے ہو۔‘‘(یونس 10: 38-37)
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس (قرآن) کو گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو کہ پھر تم ایسی ہی دس سورتیں گھڑی ہوئی لاؤ اور اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکو ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔‘‘ (ہود 11: 13 )
’’کہہ دو کہ اگر تمام انس و جن اس بات پراکٹھے ہو جائیں کہ اس جیسا قرآن لا دیں تو وہ اس جیسا نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔‘‘ (بنی اسرائیل 17: 88)
’’اگر تم اس چیز کی جانب سے شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو لاؤ اس کے مانند کوئی سورہ اور بلا لو اپنے حمایتیوں کو بھی اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو‘‘ (البقرہ 2: 23)
[جاری ہے ]