مضامین قرآن (24) دلائل توحید:انسانی علم و روایت کی دلیل ۔ ابو یحییٰ
دلائل توحید:انسانی علم و روایت کی دلیل
توحید کے حق میں انسانی علم و روایت کی دلیل
قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی پانچویں دلیل انسانی علم و روایت کی وہ مذہبی اور علمی تاریخ ہے جو ہزارہا برس پر محیط ہے۔ اس انسانی تاریخ کا کچھ جزوی تذکرہ ہم وجود باری تعالیٰ کے دلائل کے ضمن میں کرچکے ہیں۔ وہاں یہ بیان ہوا تھا کہ انسانو ں کے جدامجدحضرت آدم و حوا کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہستی کسی سنی سنائی دیومالائی داستان کی حیثیت نہیں رکھتی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس سے مکالمہ ان کا ذاتی تجربہ تھا۔یہی نہیں بلکہ واقعہ ہابیل و قابیل کے حوالے سے ہم نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ اولاد آدم کے لیے بھی وجود باری تعالیٰ اور اس کی طرف سے آنے والی نشانیاں ذاتی مشاہدات اور تجربات کی حیثیت رکھتی تھیں۔
یہاں ہم جس چیز کونمایا ں کرنا چاہتے ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں کے لیے وجود باری تعالیٰ ذاتی تجربہ ہو اور اس سے مکالمہ اور اس کی نشانیاں ان کا ذاتی مشاہدہ ہوں، وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی غیر کی عبادت کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ تو ممکن ہے کہ لوگ اپنے مفادات و خواہشات کے اسیر ہوکر ذاتی زندگی میں عملی کوتاہیوں، غفلت، معصیت اور ظلم کے مرتکب ہوجائیں، جیسا کہ قابیل نے ہابیل کو قتل کرکے کیا تھا، مگر یہ ممکن نہیں کہ لوگ پہلے مرحلے پر ہی شرک کا شکار ہوکر غیر اللہ کی عبادت شروع کردیتے۔چنانچہ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآن مجید بار بار توجہ دلاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز شاہراہ توحید ہی سے ہوا اور لوگ ابتداء میں ایک ہی امت تھے۔ مشرکانہ انحرافات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلافات اس کے بعد شروع ہوئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’اور لوگ تو ایک ہی امت تھے ۔پھر انہوں نے اختلاف کیا۔ اور اگر تمہارے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ پاچکی ہوتی تو ان کے درمیان اس امر میں فیصلہ کر دیا جاتا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔‘‘ (یونس19: 10)
’’لوگ ایک ہی امت بنائے گئے انہوں نے اختلاف پیدا کیا تو اللہ نے اپنے انبیا بھیجے جو خوشخبری سناتے اور خبردار کرتے ہوئے آئے اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی قولِ فیصل کے ساتھ تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں، ان میں فیصلہ کر دے۔ ‘‘،(بقرہ213: 2)
قرآن مجید کے یہ بیانات اس خیال کی نفی کرتے ہیں کہ انسانیت نے اپنی مذہبی تاریخ کا ا آغاز لامحدود خداؤں، دیوی دیوتاؤں اور مظاہر فطرت کی عبادت سے کیا اور پھر مذہبی تاریخ کے ارتقائی دور میں وہ بتدریج ایک خدا تک آ پہنچی۔قرآن مجید پورے اعتماد کے ساتھ اس حقیقت کو بار بار اٹھاتا ہے کہ انسانیت کی ابتدائی راہ شاہراہ توحید تھی۔ شرک کا ہر انحراف اس مرکزی شاہراہ سے انحراف کرنے کے نتیجے میں بتدریج پیدا ہوا ہے۔
اس دعویٰ کی دلیل :تاریخ رسل
ایک شخص اس دعوے کی حقانیت کو چیلنج کرکے یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ محض ایک دعویٰ، ایک خیال ہے۔ آج کے انسان کے پاس حضرت آدم و حوا، ہابیل و قابیل اور ابتدائی انسانوں کی زندگی کا کوئی ریکارڈ نہیں جو اس کی تصدیق کرسکے کہ انسانیت نے اپنا آغاز شاہراہ توحید سے کیا تھا اور یہ کہ خدا کی ہستی، اس سے مکالمہ، اس کی نشانیوں کا مشاہدہ ابتدائی انسانوں کے ذاتی تجربات تھے۔
قرآن مجید اس شبہے کا ازالہ کرتے ہوئے حضرات انبیا و رسل کی وہ پوری تاریخ انسانو ں کے سامنے رکھتا ہے جو انسانوں کے پاس مسلمہ طور پر موجود ہے۔یہ تو کسی شخص کے لیے ممکن ہے کہ وہ آدم و حوا اورہابیل و قابیل کے مذہبی بیانات کو تاریخی معیارات پر چیلنج کرے، مگر ان بیانات کا ماخذحضرات انبیا کی جو روایت ہے وہ ان کی سچائی کا ثبوت بھی ہے۔ یہ روایت جو پچھلے چار ہزار برسوں سے مسلمہ تاریخی تواتر کے ساتھ موجود ہے ، اس حقیقت کا ناقابل تردید بیان ہے کہ نہ صرف پچھلے ہزاروں برس میں بلکہ اس سے قبل بھی جو لوگ آسمان سے فیض پاکر زمین والوں کی ہدایت کے منصب پر فائز ہوئے ان کی دعوت سوائے توحید کے کچھ نہیں تھی۔ اس مسلسل مذہبی روایت کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جلیل القدر ہستی سے ہوا جو آج سے تقریباً چار ہزار برس قبل عراق میں پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ منصب نبوت و رسالت پر فائز ہوئے۔ اپنے زمانے کے ایک ظالم بادشاہ نمردو ، اپنے والداور اپنی قوم کے خلاف ڈٹ گئے اور ان کو توحید کی دعوت دی اور ان پر اتمام حجت کیا۔ اس کے بعد وہ ہجرت کرکے فلسطین آگئے ۔ اللہ کے حکم پر انہوں نے اپنی اولاد کا ایک حصہ فلسطین اور دوسرا حصہ مکہ کی وادی غیر ذی زرع یعنی بنجروویران زمین میں بسایا ۔ان دونوں سے دو عظیم امتیں یعنی بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل نے جنم لیا۔ ان میں جلیل القدر انبیائے کرام آئے۔ خاص کر بنی اسرائیل میں تو ایک تواتر کے ساتھ نبوت اور کتابوں کے نزول کا سلسلہ جاری رہا۔نبوت و رسالت کی یہ مسلمہ تاریخ اور انبیا کی کتابیں اس بات کا واضح بیان ہیں کہ ان سب کی مشترکہ دعوت توحید اور ایک اللہ کی عبادت تھی۔ یہی دعوت انہوں نے اپنی قوم کو دی، اسی سے انحراف پر ان سے زبردست فکری اور عملی جنگ کی اور اسی کی نصیحت دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنی اولاد کوکرکے گئے۔
گرچہ اس مذہبی روایت میں بھی شرک نے باربار مداخلت کی۔اولاد انبیاء بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل بتوں اوربچھڑوں سے لے کر فرشتوں اور جنوں کی عبادت کے جرم کے مرتکب ہوئے، مگر یہ سب لوگوں کے انحرافات تھے۔ حضرات انبیا کی دعوت سوائے توحید کے اور کچھ نہ تھی۔چنانچہ چار ہزار برس کی انبیا کی دعوت کو تو تاریخ کا تواتر حاصل ہے۔ پھر یہی تواتر ایک طرف اس کی گواہی دیتا ہے کہ انسانیت کا آغاز توحید سے ہوا ، دوسری طرف یہ بڑے عجیب طریقے سے اس بات کی عملی تصدیق کرتاہے کہ انسانیت کا آغاز توحید ہی سے ہوا۔ان انبیا کی تاریخ اس بات کا واضح بیان ہے کہ جس طرح ان انبیا کی اولادیں شیاطین کے شر کا شکار ہوکر شرک میں مبتلا ہوئیں، ٹھیک اسی طرح قرآن مجید کا یہ بیان مکمل علمی اور عقلی ہے کہ انسانیت کے قافلے کا سفر توحید سے شروع ہوا اور شرک بعد میں ان کے اندر درآیا۔ چنانچہ اگر یہود مسلسل انبیا کے آنے کے باوجود بعل اور بچھڑے کی عبادت کرسکتے ہیں، اگر مسیحی انجیل کی موجودگی میں جو حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے ذکر سے مکمل طور پر خالی ہے، ان کو خدا کابیٹابناسکتے ہیں تو زمانہ قبل ازتاریخ میں یہ کام بدرجہ اولیٰ ہوگا۔
شرک کے حق میں کسی گواہی کانہ ہونا
انسانی علم وروایت کا یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو اس کے برعکس طریقے سے توحید کے حق میں استدلال کرتا ہے۔ وہ یہ کہ انسانی علم و روایت کی پوری تاریخ اس تصور سے خالی ہے کہ کسی مسلمہ علم نے شرک کے حق میں کسی پہلو سے بھی کوئی گواہی پیش کی ہو۔شرک کبھی کسی نبی کی دعوت نہیں بنا اور نہ کوئی الہامی کتاب کسی پہلو سے شرک کی طرف بلاتی ہے۔ قرآن کریم سے پہلے نازل ہونے والی کتابیں بھی چاہے وہ تورات ہو، زبور یا انجیل یا کسی اور نبی کا کلام شرک کے ہر تصور سے خالی ہیں اور اس کی بھرپور تردید کرتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اللہ کے سواکوئی اور ہستی اگر عبادت کے قابل ہے، وہ خدائی میں کسی پہلو سے شریک ہے تو کیا سب سے پہلے خود اللہ تعالیٰ کو یہ بات اپنے انبیاء اور کتابوں کے ذریعے سے لوگوں کو نہیں بتانی چاہیے تھی؟اگر خدا نے اپنے نبیوں اور ان کی کتابوں کے ذریعے سے کبھی اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا اور نہ شرک کبھی صالحین کی روایت رہا تو اس بات کا کیا امکان ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود مانا جائے یا اس کی خدائی اور عبادت میں کسی اور کو شریک کیا جائے۔چنانچہ اس پس منظر میں قرآن مجید انبیا کی زندگی، تعلیمات، ان کی کتابوں اور سب سے بڑھ کر خدا کی اپنی شہادت کو بیان کرتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
مسلمہ علم کی گواہی
یہی کچھ معاملہ انسانوں کی مسلمہ علمی روایت اور صالحین کی وراثت و تعلیمات کا ہے۔ انسان کا قدیم علم ہویا جدید سائنسی علم وہ اس حقیقت کو بالکل واضح کرتا ہے کہ مخلوقات میں سے جس کسی کو معبود بنایا گیا، وہ اگر علم و سائنس کے دائرے میں آتے ہیں تو علم و سائنس کی یہ روایت یہ حقیقت بالکل کھول دیتی ہے کہ وہ معبود نہیں ہوسکتے۔ اشجار و حیوانات جن کو کسی پہلو سے بھی پوجا گیا، پوری طرح اسباب و علل کے پابند اور ان سے بلند ہر اختیار سے محروم ہیں۔یہی معاملہ اجرام فلکی کا ہے جو محض بے جان مادی وجود ہیں۔سب سے زیادہ پوجے جانے والے بت وہ تراشے ہوئے پتھرہیں جو انسان کے اپنے ہاتھوں کی صناعی ہیں۔رہے خود انسان تو جنھیں بھوک لگتی ہے،جو مرجاتے ہیں، جوسراپا عجز ہیں ،وہ کبھی معبود نہیں ہوسکتے۔ یہ سب انسانی علم وعقل کی اپنی گواہی ہے۔ یہ گواہی اہل علم نے اپنے علم کی بنیاد پر دی ہے اور صالحین اور نیک لوگوں نے اپنی فطرت اور انبیاء کی تربیت کی بنیاد پر یہ شہادت دی ہے ۔
اب رہی وہ ہستیاں جو غیر مادی ہیں اور جو سائنس اور انسانی علم کے دائرے سے مکمل طور پر باہر ہیں اور جن کی پرستش بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے یعنی فرشتے اور جن تو ان میں سے ایک ایک کی گواہی اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں پیش کرکے یہ بتاتے ہیں کہ وہ محض مخلوق ہیں جن کا خدائی میں کوئی حصہ نہیں۔ معبود صرف ایک ہی ہے ۔ اللہ جل جلالہ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہی آخری سچائی ہے۔کسی کو اس کی تردید کرنا ہے تو وہ بلائے فرشتوں اور جنوں کو اور ان سے یہ شہادت لے کہ وہ کس پہلو سے خدا کے شریک ہیں۔ خدا کے سوا کون ہے اس دنیا میں جو خدائی کا دعویٰ کرسکے؟
آیات قرآنی
’’ان سے کہو کہ اگر تم اس کو جھٹلاتے ہو تو اللہ کے پاس سے کوئی اور کتاب لاؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو، میں اسی کی پیروی کروں گا، اگر تم سچے ہو۔‘‘ (قصص49: 28
’’تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی چیزوں کو تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے اور تمہارے اوپر ہر قسم کی ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کی ہیں! پھر بھی لوگوں میں ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے باب میں بغیر کسی دلیل، بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑتے ہیں!‘‘ (لقمان20: 31
’’شاہد ہیں صفیں باندھے، حاضر رہنے والے فرشتے؛ پھر زجر کرنے والے (شیاطین کو)؛ پھر ذکر کرنے والے(اپنے رب کا)کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے‘‘ (صافات1-4: 37
’’ اور ہم میں سے ہر ایک کے لیے بس ایک معین مقام ہے اور ہم تو خدا کے حضور صف بستہ رہنے والے ہیں۔ اور ہم تو اس کی تسبیح کرتے رہنے والے ہیں۔‘‘(صافات164-166)
’’اللہ، فرشتوں اور اہل علم کی گواہی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عدل و قسط کا قائم رکھنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘(اٰل عمران18: 3
’’کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ کی موت کا وقت آیا۔ جب کہ اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا تم میرے بعد کس کی پرستش کرو گے؟ وہ بولے کہ ہم تیرے معبود اور تیرے آباؤ اجداد ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی پرستش کریں گے جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ (بقرہ133: 2
’’ابراہیم نہ تو یہودی تھا، نہ نصرانی۔ بلکہ حنیف مسلم تھا، اور وہ مشرکین میں سے بھی نہ تھا۔‘‘
( اٰل عمران 67: 3)
’’ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ خدا تو یہی مسیح ابن مریم ہے اور حال یہ ہے کہ مسیح نے کہا کہ اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ جو کوئی اللہ کا شریک ٹھہرائے گا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ان ظالموں کا کوئی مددگارنہیں ہوگا‘‘ (مائدہ 72: 5
’’پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یکسو تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔‘‘ (نحل 123: 16
’’اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھی بھیجے ان کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘ (انبیا25: 21)
’’کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی دلیل اتاری ہے جو ان چیزوں کی شہادت دے رہی ہو جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں!‘‘ (روم35: 30
’’اور اس دن کو یاد رکھو جس دن وہ ان سب کو اکٹھا کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری پرستش کرتے رہے ہیں! وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے۔ ان کے بالمقابل تو ہمارا کارساز ہے! بلکہ یہ جنوں کی پرستش کرتے رہے ہیں، ان کی اکثریت انہی پر ایمان رکھتی تھی‘‘ (سبا40-41: 34
’’ان سے کہو کہ کبھی تم نے غور بھی کیا ان چیزوں پر جن کو اللہ کے سوا تم پوجتے ہو! مجھے دکھاؤکہ زمین کی چیزوں میں سے انہوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے یا ان کا آسمانوں میں کون سا ساجھا ہے! میرے سامنے اس سے پہلے کی کوئی کتاب پیش کرو یا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ ‘‘(احقاف 4: 46
[جاری ہے]