مضامین قرآن (23) دلائل توحید: نظم کائنات ۔ ابو یحییٰ
دلائل توحید: نظم کائنات
دلیل فطرت کا خلاصہ
توحید کے حوالے سے بیان کردہ پچھلی دلیل فطرت کی تھی۔ اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے، اس فطرت کے لیے خدا کی ہستی اور اس کا تنہا معبود ہونا ایک معروف و معلوم حقیقت ہے۔ یہ ممکن ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ماحول اور حالات کی گرد انسان کی نگاہوں کو دھندلادیتی ہے۔ انسان خدا کو دیکھنے اور تنہا معبود کی شکل میں دیکھنے کے لیے اندھا ہوجاتا ہے ۔ تاہم اس اندھے پن میں کوئی داعی حق اگر نغمہ توحید کی لے بلند کر دے تو نظر نہ سہی مگر انسان کی سماعت اس نغمہ کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر ہمیشہ اپنے اندر سے اس کی تصدیق پاتی ہے۔ عام حالات میں یہ سچائی اگر واضح نہ بھی ہو تب بھی مشکلات میں گھر جانے کے بعد دل سے نکلنے والی صدا کا مخاطب تنہا ایک ہی رب ہوتا ہے ۔ ایسے میں سارے معبودان باطل کھو جاتے ہیں ۔
یہی بندگی کی وہ فطرت ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے ۔ تاہم یہ فطرت تنہا انسان تک محدود نہیں بلکہ تمام کائنات کا مذہب یہی بندگی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو انسان کا خالق ہے وہی دیگر مخلوقات کا بھی خالق ہے۔ کائنات میں جاری و ساری بندگی کی یہی وہ فطرت ہے جس سے توحید کی اگلی دلیل یعنی ’نظم کائنات‘ پھوٹتی ہے ۔
نظم کائنات پر مظاہر کائنات کی گواہی
انسان جس کائنات میں آنکھ کھولتا ہے اس کی ہر چیز انتہائی حیرت انگیز ہے ۔سورج ہر روز طلوع ہوتا ہے ۔ آسمان سے لے کر زمین تک وہ رنگ و نور کی بارش برساتا ہے۔ شام کے وقت وہ اپنی قلمرو سے دستبردار ہو کر مغرب کے دامن میں غروب ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد سیاہ آسمان میں روشنی کی قندیلیں جلانے کے لیے آسمان پر لاکھوں کروڑوں ستارے نمودار ہوتے ہیں ۔ رات بھر وہ آسمان کی بے کراں وسعتوں میں سفر کر کے جاگنے والوں کو وقت کا پتہ اور مسافروں کو منزل کا نشاں دیتے ہیں اور طلوع آفتاب سے قبل اپنے مسکنوں میں جاچھپتے ہیں۔ چاند مہینہ بھر آسمانی کیلنڈر کی خدمت سر انجام دیتا ہے ۔ درخت اپنے وجود سے پھل، پھول، سبزہ اور سایہ فراہم کرتے ہیں اور جانور انسانوں کی خوراک کا اہتمام کرتے ہیں ۔
یہ اور ان جیسے ان گنت مشاہدات انسانوں کو بیک وقت کئی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہیں ۔ ان کا ایک پہلو وہ ہے جو ربوبیت کی دلیل کے تحت زیر بحث آیا تھا ۔یعنی یہ کائنات کس طرح انسانوں کے لیے نفع بخشی کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جو قدرت کی دلیل کے تحت جزوی طور پر بیان ہوا تھا کہ لوگ کس طرح سورج ، چاند، ستاروں اور دیگر مخلوقات کو پوجتے ہیں جو اپنے وجود ہی میں اپنی محدودیت اور عجز کا کھلا اعلان ہیں ۔ سو یہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں؟ تیسری حقیقت وہ ہے جو اب زیر بحث آ رہی ہے کہ یہ ساری مخلوقات پابند ہیں، مسخر ہیں اور اپنی متضاد خصوصیات کے باوجود ایک ہی مقصد یعنی انسانوں کی نفع بخشی کے لیے اس طرح ہم آہنگ و ہم آواز ہیں کہ کوئی ایک خالق ہی اس درجہ کی متنوع ، مختلف اور متضاد خصوصیات کی مخلوق کو قابو میں کرسکتا ہے۔ نہ یہ سب کچھ خودبخود ہو سکتا ہے اور نہ آسمان و زمین ، صبح و شام، اقوام و قبائل کے جدا جدا رب ان سب کو ایک مقصد کے لیے اس طرح پابند کرسکتے ہیں ۔
قرآن میں نظم کائنات کے دومختلف پہلوؤں سے استدلال
قرآن مجید اس حقیقت کو کئی پہلوؤں سے لوگوں کے سامنے رکھتا ہے ۔ ایک پہلو وہ ہے جس میں قرآن مجید ان مظاہر کائنات کے ظاہری وجود میں موجود آثار کو پیش کرتا ہے ۔ یہ آثاراس بات کا بین ثبوت ہیں کہ یہ مظاہر آزاد اور خود مختار نہیں بلکہ ایک طاقتور ہستی کے حکم کے پابند ہیں۔ یہ جن قوانین کے پابند ہیں وہ ایک برتر اور حکیم ہستی کا تخلیق کیا ہوا نظام ہے۔ سب مخلوقات اس نظام اور قوانین کی پابندی کرتے ہیں ۔ ساتھ میں اپنے ظاہر سے بھی یہ مخلوقات اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ یہ سب اللہ ہی کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہیں ۔ وہ بتاتا ہے کہ دن بھر انسانوں کی خدمت بجا لانے کے بعد سورج رات کی تاریکی میں اور رات کی تاریکی کو اپنی جگمگاہٹ کا حسن دینے کے بعد ستارے دن کی روشنی میں اللہ کے حضورسجدہ ریز رہتے ہیں۔ چاند اور چوپائے اپنی نفع بخش منازل حیات میں اور درخت اور پہاڑ زمین پر بچھے اپنے سایوں کی شکل میں رب کے سامنے پیشانی ٹیک دیتے ہیں ۔ یہ سجدہ اطاعت کی علامت ہے ۔ یہ کنایہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ یہ مخلوق آپ سے آپ وجود میں نہیں آئیں نہ اپنی مرضی اور منشا سے منازل حیات طے کرتی ہیں بلکہ ایک ہی خالق کے حکم کی ماتحت ہیں ۔ اس نے جس کام میں ان کو لگایا یہ اسی میں زندگی گزار دیتی ہیں ۔
اس حقیقت کا دوسرا پہلو وہ ہے جو ان کی تکوینی ساخت سے نمایاں ہے ۔ یعنی یہ تمام مخلوقات اپنی تخلیق میں ایک جیسی نہیں۔ کوئی سورج کی طرح آگ ہے ۔ کوئی ہوا کی طرح نرم و لطیف ہے ۔ کوئی دھرتی کی طرح ٹھوس مادے سے وجود پذیر ہوئی ہے ۔ کوئی بارش کی طرح نمی اور تری کا ظہور ہے ۔ کوئی آسمان پر ہے۔ کوئی زمین پر۔ کوئی جمادات سے ہے کوئی نباتات سے ۔ کوئی چوپایوں کی طرح سطح زمین پر چلنے والے حیوانات میں سے ہے اور کوئی مچھلی کی طرح پانی کے اندر تیرنے والی حیات سے تعلق رکھتا ہے ۔ اتنی مختلف، متنوع اور متضاد خصوصیات کی مخلوق میں ہر ممکن اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اتفاق صرف ایک ہی پایا جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ یہ سب ایک خالق کے حکم سے انسانوں کی نفع بخشی، زندگی کی بقا اور انسان کے حواس اور ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرنے میں یک رائے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر خود انسانی وجود اس کا شاہد ہے کہ کس طرح اس دنیا میں دو متضاد چیزیں آپس میں ہم آہنگ ہوجاتی ہیں ۔ کس طرح عورت کی لطیف ساخت اور نفسیات مرد کی سخت شخصیت اور وجود سے ہم رنگ ہو کر زندگی کے نئے رنگ تخلیق کرتی اور زندگی کی بقا و تسلسل کو یقینی بناتی ہے ۔ اس سے بڑھ کر خدا کی زندہ و فعال ہستی کا واضح نشان اور کیا ہو گا جو اس کائنات کی ہر چیز کو کنٹرول کر رہا ہے اور مجموعہ اضداد سے اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے ۔
اس لیے اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ یہ مخلوقات خود بخود وجود میں آئی ہوں، ان میں اتنا اختلاف اور تضاد ہواور پھر اندھے بہرے مادے سے وجود پانے والی یہ مخلوقات ایک خاص مقصد کے لیے ہم آہنگ ہوجائیں ۔ یہ اگر ممکن ہے تو ایک خالق کی تخلیق، اس کی عنایت اور مہربانی کی وجہ سے ہے۔ وہی واجب الوجود ہے اور وہی اس قابل ہے کہ ہر پیشانی اسی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر اپنا مطلوب تلاش کرے ۔ وہی خالق ہے جس نے سب کچھ تخلیق کیا۔ وہی ناظم ہے جس نے متضاد اشیاء کو ایک مقصد کے لیے اسی طرح منظم کیا جس طرح ایک مصور اپنے فن پارے میں مختلف اور متضاد رنگ بھر کر اس کو ایک شاہکار کا روپ دیتا ہے ۔
پرامن کائنات
قرآن مجید نظم کائنات کی بنیاد پر تنہا خدائے واحد کی عبادت اور اس کی بندگی پر ایک دوسرے طریقے سے بھی متوجہ کرتا ہے ۔ اس کا پس منظر مشرکین کا یہ تصور تھا کا اللہ تعالیٰ بے شک خالق و مالک ہے لیکن وہ گمان و قیاس سے باہر ایک بلند تر ہستی ہے جو کائنات بنا کر فارغ ہو گیا ہے ۔ اب کائنات کا انتظام اس کے کچھ چہیتے اور محبوب بندے اور مخلوق چلا رہے ہیں ۔ ان میں سے کچھ آسمان پر اور کچھ زمین پر حکمرانی کرتے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال یونانی اور ہندودیومالا کا وہ طلسم ہوشربا تھا جس میں آسمان سے لے کر زمین تک دیوتاؤں کی ایک انجمن سجی ہوئی ہے ۔ ہر دیوتا کسی خاص نفع بخش مخلوق کا مالک ہے ۔ اسی کے نام پر اس کی پرستش شروع ہوجاتی تھی۔ کوئی چاند دیوتا ہے تو کوئی سورج دیوتا۔ کوئی محبت کا خدا ہے تو کوئی قہر کا۔ کوئی روشنی کا رب ہے تو کوئی اندھیرے کا خالق۔ اس انجمن بتاں میں گائے بھی معبود تھی اور جن بھی پوجے جاتے تھے ۔ انسان بھی مختار کل تھے اور فرشتے بھی معبود برحق تھے ۔
قرآن مجید اسی وسیع عریض کائنات ، متضاد و متنوع مخلوقات، ان سے جاری و ساری فیض رسانی اور اس نفع بخشی کے لیے پائی جانے والی ہم آہنگی و ہمواری کو سامنے رکھ کر یہ پوچھتا ہے کہ اگر زمین و آسمان کے معبود الگ ہوتے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر معبود اپنی مرضی چلاتا۔ کبھی سورج طلوع نہیں ہوتا۔ کبھی رات نہیں آتی۔ کبھی ہوا ختم ہوجاتی تو کبھی سمندر ساری خشکی پر پھیل جاتے۔ نتیجے کے طور پر یہ سارا کارخانہ عالم درہم برہم ہوجاتا ۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہم ایک پر امن اور ہموار کائنات میں جیتے ہیں۔ یہاں ہر چیز مکمل نظم و ہم آہنگی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ یہ اس بات کی کھلی تردید ہے کہ یہاں اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود پایا جاتا ہے۔
یہی نہیں قرآن ایک دوسرے پہلو سے یہ توجہ دلاتا ہے کہ اگر خدائے واحد کے سوا زمین و آسمان میں مختلف معبود اور ہوتے تو فطری طور پر وہ یہ چاہتے کہ رب اعلیٰ کا مقام حاصل کریں ۔ اس لیے کہ معبود عرش اگر کائنات کو بنا کر فارغ ہو گیا ہے تو پھر اقتدار تو فطری طور پر ان کو ملنا چاہیے جو اصل کام کر رہے ہیں ۔ چنانچہ وہ یقینا عرش والے کے خلاف بغاوت کر دیتے اور اس کا اقتدار چھیننے کی کوشش کرتے ۔ ایسی فضولیات دیومالاؤں میں تو ضرورپائی جاتی ہیں، مگر یہ کائنات اپنے ذرے ذرے سے یہ گواہی دے رہی ہے کہ یہاں کوئی فساد نہیں۔ کوئی جنگ نہیں ۔ یہاں مکمل امن ہے ۔ سکون ہے ۔ ہم آہنگی ہے ۔ ہمواری ہے ۔ ہر مخلوق اپنی اپنی جگہ اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض خوش دلی سے سرانجام دے رہی ہے ۔ ان کی فطرت بندگی ہے اوران کے درمیان پایا جانے والا نظم اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ متنوع، متضاد اور مختلف اشیا ء پر مشتمل یہ کائنات ایک ہی خدا کے ماتحت ہے ۔ یہاں اگر فرشتوں کی شکل میں کوئی صاحب اختیار مخلوق ہے بھی تو اس کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ خدا کے خلاف کبھی بغاوت کا سوچ سکیں ۔ وہ بھی باقی مخلوق کی طرح تسبیح، تعریف، بندگی اور سجود میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں جنوں کی شکل میں کوئی شیاطین موجود ہیں تو ان کو بھی ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔ جب ان مخلوقات کا یہ حال ہے تو باقی ہماشما کی کیا مجال ہے کہ خدائے واحد کے خلاف بغاوت کر کے اپنا یا دیگر مخلوقات کا کنٹرول خود حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔
قرآنی بیانات
’’ اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ رحمان اور رحیم ہے۔ بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت، رات اور دن کی آمد و شد، اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کے لیے سمندر میں نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اتارا اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس سے اس میں ہر قسم کے جان دار پھیلائے اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مامور ہیں ، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں ‘‘(البقرہ 2: 164-163)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر تم دیکھتے دیکھتے بشر بن کر روئے زمین پر پھیل جاتے ہو اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرواور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی ودیعت کی۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں ان کے لیے جو غور کرنے والے ہیں ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی خلقت اور تمہاری بولیوں اور تمہارے رنگوں کا تنوع بھی ہے۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں اصحاب علم کے لیے۔ اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن میں تمہارا سونا اور اس کے فضل کا طالب بننا ہے۔ بے شک اس کے اندر گوناگوں نشانیاں ہیں ان کے لیے جو سننے سمجھنے والے ہیں ۔ ‘‘، (روم 30: 23-20)
’’کہہ دو کہ اگر کچھ اور الٰہ بھی اس کے شریک ہوتے جیسے یہ دعویٰ کرتے ہیں تو وہ عرش والے پر ضرور چڑھائی کر دیتے۔ وہ پاک اور بہت برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کہتے ہیں ۔ (بنی اسرائیل17: 43-42)
’’اور اسی کے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو اس کے پاس ہیں ۔ وہ اس کی بندگی سے نہ سرتابی کرتے اور نہ تھکتے ۔ وہ شب و روز اس کی تسبیح کرتے ہیں اور دم نہیں لیتے ۔
کیا انہوں نے زمین کے الگ معبود ٹھہرا لیے ہیں، وہ زمین کو شاداب کرتے ہیں؟ اگر ان دونوں کے اندر اللہ کے سوا الگ الگ الٰہ ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہو کے رہ جاتے ۔ تو اللہ عرش کا مالک، ان چیزوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں! وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے باب میں کسی کے آگے مسؤل نہیں اور یہ سارے مسؤل ہیں ۔‘‘، (انبیا 21: 23-19)
’’خدا نے کسی کو اپنی اولاد نہیں قرار دیا اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور معبود شریک ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود جو کچھ اس نے پیدا کیا ہوتا اس کو لے کر الگ ہو جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کر دیتا، خدا ایسی باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں ۔ ‘‘ (مومنون 23: 91)
’’کیا نہیں دیکھتے کہ اللہ ہی کے آگے جھکتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج ، چاند، ستارے ، پہاڑ ، درخت اور چوپائے اور لوگوں میں سے بہتیرے ۔ اور بہتیرے ایسے ہیں جن پر خدا کا عذاب لازم ہو چکا ہے ۔ اور جن کو خدا ذلیل کر دے تو ان کو کوئی دوسرا عزت دینے والا نہیں بن سکتا۔ بے شک اللہ ہی کرتا ہے جو چاہتا ہے ۔ ‘‘ (حج 22: 18)
’’اور آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب خدا ہی کو سجدہ کرتے ہیں، خواہ طوعاً خواہ کرہاً۔ اور ان کے سائے بھی صبح اور شام۔‘‘ (رعد 13: 15)
’’اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں جاندار ہیں اور فرشتے بھی، وہ سرتابی نہیں کرتے۔ وہ اپنے اوپراپنے رب سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا ان کو حکم ملتا ہے ۔‘‘ (نحل 16: 50-49)
[جاری ہے ]