مضامین قرآن (22) دلائل توحید : فطرت ۔ ابو یحییٰ
دلائل توحید : فطرت
اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات، اس کی بندگی کی دعوت اور غیر اللہ کی الوہیت، عبادت اور اطاعت کی نفی کے ضمن میں ابھی تک ہم نے قرآن مجید کے دو بنیادی دلائل کا مطالعہ کیا ہے ۔ ایک ربوبیت اور دوسرا قدرت۔ ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ جس رب نے ساری نعمتیں دی ہیں تنہا وہی عبادت کے لائق ہے ۔ قدرت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں سارا اختیار اور اقتدار اور نفع و ضرر کا سارا معاملہ سرتاسر اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ جبکہ اللہ کے سوا جن معبودان باطل کی عبادت کی جاتی ہے ، نہ ان کا خدائی میں کوئی حصہ ہے اور نہ وہ یہ طاقت ہی رکھتے ہیں کہ کسی کی کچھ دادرسی کرسکیں ۔ جب اختیار اور نفع تمام تر اللہ کے ہاتھ میں ہے تو وہی عبادت کے لائق ہے اور اس کے سوا کوئی اور ہستی عبادت کی مستحق نہیں ۔
انسانی فطرت سے استدلال
قرآن مجید ایک تیسرے پہلو سے بھی لوگوں کے سامنے توحید کی دعوت رکھتا ہے ۔ یہ انسان کے اندر موجود فطرت کا پہلو ہے۔ قرآن کریم اپنے مخاطبین کو یہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک ایسی فطرت پر پیدا کیا ہے جس کا دین شرک نہیں بلکہ ایک اللہ کی بندگی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’پس تم اپنا رخ یکسو ہو کر دینِ حنیفی کی طرف کرو۔ اس دینِ فطرت کی پیروی کرو جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے ۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ اسی کی طرف متوجہ ہو کر اور اسی سے ڈرو اور نماز کا اہتمام رکھو۔ اور تم لوگ مشرکین میں سے نہ بنو‘‘ (سورہ روم آیات 30: 31-30)
ان آیات میں یہ بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ بندگی کی جس دعوت کو لے کر انبیا علیھم السلام آئے ہیں اور جسے قرآن مجید جگہ جگہ ’’ذکر‘‘ اور ’’ذکریٰ‘‘ یعنی یاددہانی کے عنوان سے بیان کرتا ہے وہ انسانوں کے لیے کوئی اجنبی شے نہیں ہے۔ بلکہ وہ فطرت کی اس پکار کا جواب ہے جو انسانوں کے اندر سے اٹھتی ہے اور جس پر انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہ پکار اتنی واضح ہے کہ کئی مقامات پر قرآن مجید میں اسے ’’بینۃ ‘‘، (مثلاً دیکھیے ہود 28:11) یعنی روشن دلیل قرار دیا گیا ہے ۔ یہ پکار انسان کو بتاتی ہے کہ خدا ہے اور اس جیسا کوئی نہیں ۔ انبیا علیہم السلام اپنی فطرت کی پاکیزگی کی بنا پر صرف اسی ’’بینۃ ‘‘ کی بنیاد پر نبوت ملنے سے قبل ہی توحید پر قائم رہتے ہیں اور ان کا دامن کبھی شرک سے آلودہ نہیں ہوتا۔ جبکہ عام لوگ جب انبیا علیھم السلام کی دعوت کو سنتے ہیں تو ان کی روشن فطرت پر جو پردے پڑے ہوتے ہیں وہ ہٹ جاتے ہیں اور ان میں سے سلیم الفطرت لوگ آگے بڑھ کر اس یاددہانی کو قبول کر لیتے ہیں ۔
قرآن کریم مزید یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فطرت کا یہ شعور جسے لے کر انسان اس دنیا میں آتا ہے ایک خصوصی معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں امتحان کی غرض سے بھیجتے وقت زادراہ کے طور پر ان کے ہمراہ کیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی اولاد کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ بنا کر پوچھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ اُنھوں نے جواب دیا: ضرور، آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اِس پر گواہی دیتے ہیں ۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس سے بے خبر ہی تھے یا اپنا عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں ، پھر آپ کیا اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں ، (اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو) اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں ۔‘‘ (الاعراف 7: 174-172)
قرآن مجید کے نزدیک انسان کی اس روشن فطرت کا ماخذ یہی واقعہ ہے ۔ اسی واقعے کی بنیاد پر انسان ہمیشہ یہ بات یاد رکھتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے ۔ اس کا ماحول اور اس کے باپ داد اس کی فطرت کو کسی بھی طرح مسخ کریں ، اس کے نہاں خانہ دل میں اس واقعے کی یاد ہمیشہ باقی رہتی ہے اور اگر وہ اپنے ماحول اور حالات کا چڑھایا ہوا خول اتارنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ جان لے گا کہ ایک اللہ کا اعتراف اور اس کی عبادت عین اس کی فطرت ہے ۔
رہی یہ بات کہ یہ اگر حقیقی واقعہ ہے تو انسانوں کو یاد کیوں نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اگر یاد رہتا تو پھر امتحان ختم ہوجاتا ہے ۔ تاہم یہ واقعہ اپنی تفصیل میں انسانوں کو چاہے نہ یاد ہو مگر اپنے اثرات کے لحاظ سے ہمیشہ ان کے لاشعور کا حصہ بنا رہتا ہے ۔ اس کی مثال بچپن میں پیش آنے والے ان واقعات کی ہے جو بڑے ہوجانے پر انسانوں کو یاد تو نہیں رہتے ، مگر ان کے اثرات تازیست انسانی نفسیات پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں ۔
انسانوں کا اعتراف اور عمل
قرآن مجید ایک دوسرے پہلو سے فطرت کی دلیل کو نمایاں کرتا ہے ۔ وہ جگہ جگہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وہ لوگ جو بتوں کے پجاری اور دیوی دیوتاؤں کے اسیر ہوتے ہیں ، غیر اللہ کو پکارنا عبادت اور زندگی سمجھتے ہیں ، وہ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ جن معبودان باطل کی وہ عبادت کرتے ہیں ، ان کا آسمان و زمین کی پیدائش میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اسی طرح کائنات کا نظام چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’ان سے پوچھو ، یہ زمین اور جو اس میں ہیں کس کے ہیں ، اگر تم جانتے ہو! کہیں گے اللہ کے ۔ کہو تو کیا تم اس سے یاد دہانی نہیں حاصل کرتے ! پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا خداوند کون ہے ؟ کہیں گے یہ سب اللہ کے ہیں ۔ کہو تو کیا تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں ! پوچھو، وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور وہ پناہ دیتا ہے ، لیکن اس کے مقابل میں پناہ نہیں دی جا سکتی، اگر تم جانتے ہو! وہ کہیں گے یہ باتیں اللہ ہی کے اختیار کی ہیں ، کہو پھر تمہاری مت کہاں ماری جاتی ہے ۔ (مومنون 23: 89-84)
’’اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو جواب دیں گے اللہ نے ، کہو شکر کا سزاوار بھی اللہ ہے ۔ بلکہ ان کے اکثر اس بات کو نہیں جانتے ۔‘‘(لقمان 31: 25)
’’اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے تو پھر کہاں بھٹک جاتے ہیں ! ‘‘ (زخرف 43: 87)
یہی وہ لوگ ہیں جن کی فطرت پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور جو اپنی خواہشات اور تعصبات کی بنا پر غیر اللہ کے سامنے گردن تو جھکا دیتے ہیں ، مگر جب کبھی مصیبت و پریشانی ان کے بس سے باہر ہوجاتی ہے تو آخر کار یہ تڑپ کر اللہ وحدہ لاشرک ہی کو پکارتے ہیں ۔
’’کہہ دو بتاؤ، اگر تم پر اللہ کا عذاب آ جائے یا قیامت آ دھمکے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو؟ بلکہ اسی کو پکارو گے تو وہ دور کر دیتا ہے اس مصیبت کو جس کے لیے تم اس کو پکارتے ہو اگر چاہتا ہے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان کو بھول جاتے ہو‘‘ (انعام 6: 41-40)
’’ان سے پوچھو، خشکی اور تری کی تاریکیوں میں سے تم کو کون نجات دیتا ہے جبکہ اسی کو تم پکارتے ہو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر اس نے ہم کو نجات دے دی اس مصیبت سے تو ہم اس کے شکر گزار بندوں میں سے بن جائیں گے؟ کہہ دو اللہ ہی تم کو نجات دیتا ہے اس مصیبت سے بھی اور دوسری ہر تکلیف سے لیکن تم پھر شرک کرنے لگتے ہو‘‘ (انعام 6: 64-63)
’’اور انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب تو لیٹے ، بیٹھے یا کھڑے ہم کو پکارتا ہے ۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو اس طرح چل دیتا ہے گویا کسی تکلیف کے لیے، جو اس کو پہنچی، اس نے ہم کو پکارا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح حدود سے تجاوز کرنے والوں کی نگاہوں میں ان کے اعمال کھبا دیے گئے ہیں (یونس10: 12)
’’وہی ہے جو تمہیں خشکی اور تری میں سفر کراتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور کشتیاں ہوائے موافق سے چل رہی ہوتی ہیں اور وہ اس میں مگن ہوتے ہیں کہ دفعتہ ایک باد تند آتی ہے اور ان پر ہر جانب سے موجیں اٹھنے لگتی ہیں اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ہم ہلاک ہوئے تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں خالص اسی کی اطاعت کا عہد کرتے ہوئے کہ اگر تو نے ہمیں اس آفت سے نجات دی تو ہم تیرے شکر گزار بندوں میں سے ہو کر رہیں گے ۔ ‘‘ (یونس 10: 22)
’’اور جب تمہیں سمندر میں مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے سوا جن کو تم پکارتے ہو سب غائب ہو جاتے ہیں ۔ پھر جب وہ تم کو خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم اعراض کر بیٹھتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔‘‘ (بنی اسرائیل 17: 67)
’’پس جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے ۔ پس جب ان کو خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو پھر وہ اس کے شریک ٹھہرانے لگتے ہیں ۔‘‘ (العنکبوت29: 65)
یہی فطرت کی وہ پکار ہے جو اس بات کا سب سے بڑھ کر ثبو ت ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی بندگی اور عبادت کے لائق ہے ۔
[جاری ہے ]