مضامین قرآن (20) دلائل توحید: ربوبیت ۔ ابو یحییٰ
دلائل توحید: ربوبیت
ربوبیت کا مطلب وہ کائناتی انتظام ہے جو اس کائنات میں زندگی کو وجود میں لانے، اسے برقرار رکھنے، اس کی ترقی اور تنوع کا سلسلہ جاری رکھنے، کائناتی طاقتوں اور حوادث سے اسے تحفظ دینے سے عبارت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر ہمارے مالک ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ہم کو وجود بخشا۔ ان ہی کی عطا کردہ نعمتوں کی بنا پر ہمارا وجود ماں کے پیٹ میں ایک خلیہ کی شکل میں اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ ایسا خلیہ جو سوئی کی نوک سے زیادہ باریک ہوتا ہے۔ اس محفوظ مقام پر وہ قدم بقدم ہم کو مختلف مراحل سے گزارتے ہوئے ایک پورا انسان بناتے ہیں ۔ پھر ہم دنیا میں اس حال میں آتے ہیں کہ نہ دانت ہوتے ہیں کہ کھا سکیں ، نہ اعضا و جوارح میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ حصول خوارک ، موسموں کی شدت سے بچنے اور زمانے کے سرد و گرم سے اپنے تحفظ کی جدوجہد کرسکیں ۔ مگر وہ ہمارے گرد رشتے ناطوں کا ایسا محفوظ حصار باندھتے ہیں جو حوادث زمانہ سے ہماری حفاظت کرتا اور ہماری ہر ضرورت کا بندوبست کرتا ہے ۔ جو اس کے بس کی بات نہیں ہوتی اس کا انتظام ہمارا خالق انتہائی آسان اور محفوظ طریقے پر اس طرح کرتا ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہماری خوراک ہے ۔ ایک نومولود کے لیے اس کی ماں کا وجود جو خون اور گوشت کا مجموعہ ہوتا ہے حیرت انگیز طور پر دودھ جیسی پاکیزہ اور لطیف خوراک کا سرچشمہ بن جاتا ہے ۔ جب تک بچے کی ضرورت ہوتی ہے خون کی جگہ ماں کے وجود سے دودھ کی فراہمی جاری رہتی ہے اور جب ضرورت ختم ہوجاتی ہے تو یہ سوتے خشک ہو جاتے ہیں ۔
یہی معاملہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ نعمتوں کی یہ برسات صرف ہماری ضروریات کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ آسائش، لذت اور ذوق جمال کی بھی بھرپور تسکین کرتی ہے۔ انسان جب شیرخوارگی کی عمر سے نکلتا ہے تو نشونما کے لیے خوراک کی ضرورت پیش آ جاتی ہے ۔ یہ خوراک سخت دانتوں کے بغیر معدے تک پہنچنا ممکن نہیں ۔ چنانچہ خوراک کو کچلنے والے دانتوں کی فصل منہ میں اگ جاتی ہے۔ پتھر سے زیادہ سخت اس فصل کے بیچ وہ نرم و نازک زبان ہوتی ہے جو انواع واقسام کے ذائقوں کی لذت سے انسانی وجود کو لذت و سرور بخشتی ہے۔ انسان شباب کی عمر کو پہنچتا ہے تو جسم میں خود بخود وہ تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں جو اسے اس قابل بنا دیتی ہیں کہ وہ صنف مخالف کے ساتھ مل کر اولاد جیسی نعمت کو حاصل کرسکے۔ مگر یہاں بھی حیاتیاتی ضرورت کے ساتھ ذوق جمال کی تسکین کا جو اہتمام کیا گیا ہے ، اس سے بھی ہر انسان واقف ہے ۔
بقا اور ارتقا کا یہ نظام وجود ہی میں نہیں آ سکتا اگر پوری کائنات کو مسخر کر کے زندگی کے حق میں ہموار نہ کیا جائے۔ سورج اگر چمکنا بند کر دے، چاند اگر نکلنا چھوڑ دے ، آسمان اگر برسنا روک دے ، دھرتی اگر اپنا سینہ شق کر کے فصل نہ اگائے ، دن اور رات کا سلسلہ اگر اپنی گردش بند کر دے اور ان جیسے ہزاروں لاکھوں انتظامات میں سے ایک بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو زندگی اپنا وجود کھودے گی۔ یہ صرف اللہ پروردگار عالم کی ہستی ہے جو اپنی قوت سے تمام کائنات کو انسان کے لیے رزق کا دسترخوان بنادیتے ہیں ۔
انسانیت کا المیہ :حواس پرستی
یہ سارے اہتمام اس انسان کے سامنے ہیں جو پتھر نہیں ہے کہ کسی کی مہربانی پر نہ پگھلے۔ جو کوئی جانور نہیں ہے کہ احسان کے جواب میں بندگی کے ڈھنگ نہ جانتا ہو۔ انسان ایک حساس اور باذوق ہستی ہے۔ وہ عنایت کا مطلب سمجھتا ہے۔ وہ عطا اور بخشش کی زبان کو جانتا ہے۔ وہ لطف و کرم کو محسوس کر لیتا ہے۔ پھر اس کا وجود سراپا اعتراف بن جاتا ہے۔ اس کی ہستی سراپا شکر بن جاتی ہے۔
پھر انسان صاحب احساس ہی نہیں صاحب ادراک بھی ہے ۔ وہ محسوس ہی نہیں کرتا سوچتا بھی ہے۔ اسے عقل و فہم کی صلاحیت دی گئی ہے ۔ یہ صلاحیت جو ایک طرف اپنی ذات میں سب سے بڑی نعمت ہے، ایک دوسرے پہلو سے اس کے سامنے یہ سوال رکھ دیتی ہے کہ کون ہے جس نے زندگی سے محروم اور آگ ، گیسوں ، پتھروں ، خلا پر محیط اس کائنات میں انسان کے لیے زمین کو گہوارا اور آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا ہے۔ پھر فرش تاعرش انعام و احسان کے وہ انبار رکھ دیے ہیں جنھیں دیکھ کر کوئی ذی ہوش اور ذی شعور انسان بے پروا اور بے نیاز ہو کر نہیں گزرسکتا۔ مگر ہزار ہا برس پر محیط انسانی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نے دنیا میں موجود ان تمام مہربانیوں کے معاملے میں اپنی عقل کو ایک کونے میں رکھ کرصرف اور صرف حواس پرستی کا مظاہرہ کیا۔ صرف اس بنیاد پر کہ یہ سب کچھ دینے والا نظر نہیں آتا وہ اپنی بندگی کا نذرانہ انسانوں ، پتھروں اور دیگر مخلوقات کی جھولی میں ڈالتا رہا۔
ربوبیت کے سوال کا جواب : بندگی، اعتراف اور شکر
حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ خدائے واحد کے معاملے میں وہ نہ اعتراف کرسکا نہ شکر۔ خدا کا اعتراف یہ تھا کہ اس کو ایک مانا جائے ۔ ہر عطا کو اس کی جانب منسوب کیا جائے ۔ شکر یہ تھا کہ تنہا اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔ کیونکہ اس کے سوا نہ انسان کا کوئی خالق ہے نہ انسان کا کوئی داتا۔ وہی عطا کرنے والا اور وہی دینے والا۔ مگر انسانیت نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر اپنے ساتھ یہ ظلم کیا کہ سب کچھ دینے والے کو بندگی کا ایک سجدہ تک دینا گوارانہ کیا۔ اس کا دل ہمیشہ مخلوقات میں اٹکا رہا۔ انسانوں نے ہر ہر مخلوق کو پوجا مگر خدا کو نہ پوجا۔ سب کی عظمت کا اعتراف کیا۔ نہ کیا تو رب کائنات کی یکتائی کا اعتراف نہ کیا۔
یہ انسانیت کے دور طفولیت کا معاملہ تھا۔ مگر آج جب انسانیت اپنے پورے شعور کو پہنچ چکی ہے تو اس نے اپنی عقل کا ایک دوسرے طریقے سے مذاق اڑایا ہے۔ پہلے زمانے کے لوگ خدا کو مانتے تھے۔ اسے ایک ماننے کو تیار نہ تھے ۔ وہ خدا کو رب مانتے تھے ، مگر اس کے بیٹے بیٹیاں تخلیق کر کے اپنی بندگی کا ہر جذبہ ان آسمانی اولادوں کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے۔ مگر دور جدید کا انسان ساری نعمتوں کو دیکھتا اور سمجھتا ہے، مگر دینے والے کے وجود کا منکر ہو گیا یا پھر اس سے غافل ہوکر دنیا ہی میں اپنی جنت بنانے میں مشغول ہو گیا ہے۔مگر نہ پہلا رویہ درست تھا اور نہ یہ دوسرا رویہ۔
یہ قرآن کریم ہے جو انسانیت کو بتاتا ہے آسمان سے لے کر زمین تک پھیلی نعمتوں کی اس عظیم بادشاہی کا رب اللہ پروردگار عالم ہے ۔ وہی تنہا ہر نعمت کا دینے والا اور ہرمہربانی کو جنم دینے والا ہے۔ یہ اس کا حق ہے کہ اس کے ہونے، ایک ہونے اور تنہا رب ہونے کا اعتراف کیا جائے۔ یہ انسان کا فرض ہے کہ اس ایک رب کی عبادت کرے اور اسی کی بندگی کو اپنی زندگی بنائے۔ یہ بندگی جیسا کہ پیچھے بیان ہوا دو چیزوں سے عبارت ہے ایک اعتراف اور دوسرے شکر۔ یہی بندگی کی وہ دعوت ہے جسے لے کر قرآن مجید آیا ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل ربوبیت ہے کہ انسان ایک نعمت بھری دنیا میں جی رہا ہے۔ یہ دنیا نہ انسان نے پیدا کی۔ نہ مخلوق میں سے کسی اور نے پیدا کی اور نہ خود بخود وجود میں آئی ہے ۔ یہ اللہ واحد و لاشریک کی تخلیق ہے اور اپنی اس تخلیق پر وہ اعتراف، شکر اور بندگی کا مستحق ہے ۔
ربوبیت : دلیل توحید اور دلیل آخرت
ربوبیت بیک وقت دلیل توحید بھی ہے اور دلیل آخرت بھی ۔ توحید کی دلیل اس پہلو سے ہے کہ انسان کی عقل اور اس کی فطرت اسے یہ بتاتی ہے کہ جس نے نعمت دی ہے ، اس کا احسان ماننا ایک لازمی عقلی اور اخلاقی تقاضہ ہے ۔ آخرت کی دلیل یہ اس پہلو سے ہے کہ انسان نے اپنے لیے اس دنیا میں جو نظام قائم کر رکھا ہے وہ ٹھیک اسی اصول پر ہے کہ کارخانہ اگر لگایا گیا ہے اور ملازموں کی ہر ضرورت کو اس میں پورا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے تو لازمی ہے کہ دیکھا جائے کہ کس نے مطلوبہ کام کیا۔ جس نے اہتمام کیا ہے وہ احتساب بھی کرے گا۔
قرآن کریم میں ربوبیت کی یہ دلیل ان دو پہلوؤں سے بار بار استعمال کی گئی ہے ۔ کبھی صاف طورپر بتادیا گیا ہے کہ نعمت کی شکر گزاری اور پھر اس کے بعد احتساب لازمی ہے اور کبھی نعمتوں پر توجہ دلا کر عقل انسان کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرے اور اپنے لیے درست لائحہ عمل خود بنائے۔
قرآنی بیانات:
اے لوگو، بندگی کرو اپنے اس خداوند کی جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں ، تاکہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہو۔ اس کی بندگی، جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور اتارا آسمان سے پانی اور اس سے پیدا کیے پھل تمہاری روزی کے لیے ۔ تو تم اللہ کے ہم سر نہ ٹھہراؤ اور حالآںکہ تم جانتے ہو۔ (البقرہ 2: 22-21 )
’’بے شک اللہ ہی دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے ۔ وہ برآمد کرتا ہے زندہ کو مردہ سے اور وہی برآمد کرنے والا ہے مردہ کو زندہ سے ، بس وہی اللہ ہے تو تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو! وہی برآمد کرنے والا ہے صبح کا اور اس نے رات سکون کی چیز بنائی اور سورج اور چاند اس نے ایک حساب سے رکھے۔ یہ خدائے عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تا کہ تم ان سے خشکی اور تری کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کرو۔ ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کر دی ہیں جو جاننا چاہیں اور وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ایک ہی جان سے پھر ہر ایک کے ایک مستقر اور ایک مدفن ہے ، ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کر دی ہیں جو سمجھیں۔ اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس سے ہر طرح کی روئیدگی اگاتے ہیں، پھر ہم نے اس سے سرسبز شاخیں ابھاریں جن سے ہم تہ بہ تہ دانے پیدا کر دیتے ہیں اور کھجور کے گابھے سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ ہر ایک کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو جب وہ پکتا ہے۔ بے شک ان کے اندر نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانا چاہیں ۔
اور انہوں نے جنوں میں سے خدا کے شریک ٹھہرائے حالانکہ خدا ہی نے ان کو پیدا کیا اور(انہوں نے ) اس (خدا) کے لیے بے سند بیٹے اور بیٹیاں تراشیں ، وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں ۔ (انعام 6: 100-95)
اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور بادلوں سے پانی اتارا پھر اس سے مختلف قسم کے پھل تمہارے رزق کے لیے پیدا کیے اور کشتی کو تمہاری نفع رسانی میں لگا دیا تا کہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور اس نے دریاؤں کو بھی تمہاری نفع رسانی میں لگا دیا اور سورج اور چاند کو بھی تمہاری نفع رسانی میں لگا دیا، دونوں ایک ہی انداز پر گردش میں ہیں اور دن اور رات کو بھی۔ اور تم کو ہر اس چیز میں سے بخشاجس کے تم طالب بنے ۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چا ہو گے تو ان کو شمار نہ کر پاؤ گے ۔ بے شک انسان بڑ ا ہی حق تلف ناشکرا ہے ۔ (ابراہیم 14: 32-31)
اس نے انسان کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیاتو وہ ایک کھلا ہوا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور چوپائے بھی اس نے تمہارے لیے پیدا کیے جن کے اندر تمہارے لیے گرم لباس بھی ہے اور دوسری منفعتیں بھی اور ان سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ اور ان کے اندر تمہارے لیے ایک شان بھی ہے جب کہ تم ان کو شام کو گھر واپس لاتے ہو اور جس وقت کہ ان کو چرنے کو چھوڑتے ہو۔ اور وہ تمہارے بوجھ ایسی جگہوں پر پہنچاتے ہیں جہاں تم شدید مشقت کے بغیر پہنچنے والے نہیں بن سکتے تھے ، بے شک تمہارا رب بڑا ہی شفیق و مہربان ہے اور اسی نے پیدا کیے گھوڑے اور خچر اور گدھے کہ تم ان پر سوار ہو اور وہ زینت بھی ہیں اور وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے اور بعض راہیں کج ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر کر دیتا۔
وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا جس میں سے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے وہ نباتات بھی اگتی ہیں جن میں تم مویشیوں کو چراتے ہو۔ وہ اسی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے ۔ بے شک اس کے اندر بہت بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سوچیں ۔اور اس نے رات اور دن ، سورج اور چاند کو تمہاری نفع رسانی میں لگا رکھا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم سے نفع رسانی میں لگے ہوئے ہیں، بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھیں، اور زمین میں جو چیزیں تمہارے لیے گوناگوں قسموں کی پھیلائیں، بے شک اس میں بھی بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو یاد دہانی حاصل کریں۔
اور وہی ہے جس نے سمندر کو تمہاری نفع رسانی میں لگا رکھا ہے تا کہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے وہ زیور نکالو جو تم پہنتے ہو اور تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ اس میں چیرتی ہوئی چلتی ہیں (تاکہ تم اس میں سفر کرو) اور اس کے فضل کے طالب بنو اور تاکہ تم اس کے شکرگزار بنو۔
اور اس نے زمین میں پہاڑ ڈال دیے ہیں کہ وہ تمہیں لے کر جھک نہ پڑے اور نہریں جاری کر دی ہیں اور راستے نکال دیے ہیں تاکہ تم راہ پاؤ اور دوسری علامتیں بھی ہیں اور ستاروں سے بھی وہ راہ معلوم کرتے ہیں۔
تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے ان کے مانند ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے ؟ تو کیا تم سوچتے نہیں؟ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چا ہو تو تم ان کا احاطہ نہ کر سکو گے ۔ بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، مہربان ہے۔ اور اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ اور جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ پیدا نہیں کرتے، وہ تو خود مخلوق ہیں، مردہ غیر زندہ، اور ان کو احساس بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (النحل 4: 21-16)