مایوسی اور احساس زیاں ۔ ابویحییٰ
کسی قوم کا حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جو قوم میں احساس زیاں تو پیدا کرے لیکن کبھی مایوسی نہ پیدا ہونے دے۔ یہی ایک فکری لیڈر کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ ہماری جدید تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال علامہ اقبال ہیں۔ اقبال نے اپنے زمانہ کے لحاظ سے قوم کے مسائل کی نشاندہی کی۔ قوم کو جھنجھوڑنے کے لیے دل ہلادینے والے مرثیہ پڑھے، سخت قسم کی تنقید کی، خرابیوں کی نشان دہی کی۔ مگر ساتھ ساتھ لوگوں کی امید کو زندہ رکھا۔ مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ایک عملی حل دیا۔ یہی ایک سچے مفکر کی نشانی ہوتی ہے۔
اس کے برعکس آج ہمارے ہاں جس قسم کی فکری لیڈر شپ ہے وہ قوم میں بدترین مایوسی پیدا کر رہی ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگ وہ ہیں جنھیں اللہ نے لکھنے یا بولنے کی کچھ صلاحیت اور اس کے اظہار کے لیے کوئی پلیٹ فارم دے دیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ لکھنے اور بولنے والے یہ شعور نہیں رکھتے کہ زندہ مفکر کبھی قوم میں مایوسی پید انہیں کرتے۔ وہ قوم میں احساس زیاں پیدا کرتے ہیں۔ احساس زیاں کے بغیر لوگ اصلاح کے لیے نہیں اٹھتے۔ اس لیے اسے ضرور پیدا کرنا چاہیے۔ لیکن ایک مفکر کو کبھی مایوسی نہیں پیدا کرنی چاہیے۔ مایوسی قوت عمل چھین لیتی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ لوگوں کو برا اور بد عمل بنا دیتی ہے۔ یوں یہ مرثیہ گوئی کسی برائی کو ختم نہیں کرتی بلکہ ایک اور برے شخص کا معاشرے میں اضافہ کر دیتی ہے۔
ہماری فکری قیادت پر یہ فرض ہے کہ وہ قلم اٹھانے اور زبان کھولنے سے قبل یہ فرق کرنا سیکھے کہ احساس زیاں پیدا کرنا اور مایوسی پیدا کرنا دو الگ الگ چیزیں ہوتی ہیں۔ جو لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے انھیں اقبال کی زندگی اور کام کو غور سے سمجھنا چاہیے۔ اقبال اپنی ذات میں سب سے بڑی رہنمائی ہیں کہ مایوسی اور احساس زیاں میں کیا فرق ہوتا ہے۔