مسجد کا ماحول ۔ ابویحییٰ
مساجد اللہ کا گھر ہیں۔ یہاں ہر روز مسلمان دن میں پانچ دفعہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ فرض نمازیں جماعت سے ادا کرنے کی بہت فضیلت آئی ہے۔ بعض روایات میں جماعت کی نماز کو فرد کی نماز سے 27 گنا افضل قرار دیا گیا ہے۔ (بخاری:رقم 619)
مسجد میں پڑھی جانے والی نماز عام نماز سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ یہ انسان کو اس کے مادی ماحول سے کاٹتی ہے اور مسجد کے روحانی ماحول میں لے جاتی ہے۔ یہ ماحول مختلف طریقوں سے انسان کی تربیت کرتا ہے۔
انسان اپنے گھر، دکان، دفتر سے اٹھتا ہے اور مسجد کی سمت روانہ ہوتا ہے۔ اپنی جگہ چھوڑنا اور مسجد کی طرف جانا اپنی ذات میں ایک اعلیٰ درجہ کا خدا پرستانہ عمل ہے جس میں ہر قدم پر انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ در حقیقت وہ اللہ کا بندہ ہے اور اسے لوٹ کر اپنے رب کے حضور جانا ہے۔
مسجد میں نماز کے انتظا رمیں اسے بیٹھنا پڑتا ہے۔ یہ تنہائی اور خاموشی کا وقت ہوتا ہے۔ انسان اپنے روٹین کی روزمرہ زندگی اور معمولات میں غور و فکر کا کوئی وقت نہیں پاتا۔ مگر مسجد میں اسے نماز کی عبادت کے ساتھ غور و فکر کی عظیم عبادت بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ وہ اس دوران میں اللہ کا ذکر کرتا اور کائنات میں پھیلی اس کی نشانیوں پر غور کرتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ جس طرح اس لمحے لوگ بظاہر بے مصرف اورخاموش بیٹھے، مگر درحقیقت اللہ کی یاد میں مشغول ہیں، اسی طرح کائنات میں موجود مخلوقات کا ہجوم اپنی خاموش زبان میں رب کی حمد اور تسبیح بیان کرتا ہے۔ اسے اپنے رب کی عظمت کا احساس ہوجاتا ہے جو ان تمام مخلوقات کا خالق ہے۔
مسجد میں بہت سے لوگوں کے ساتھ جماعت کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ جس میں ہر شخص ایک امام کی پیروی کرتا ہے۔ اس سے نمازی کو یہ سبق ملتا ہے کہ انسانوں کو اپنے اپنے اختلافات کے باجود ایک ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سب لوگ اپنے آپ کو ایک ڈسپلن کے حوالے کر دیں۔
مسجد سے واپسی پر وہ یہ احساس لے کر جاتا ہے کہ وہ ابھی سر سے پاؤں تک جسم کے ہر حصے کو خدا کے سامنے جھکا کر اس سے اطاعت کا عہد کر کے آیا ہے۔ اس لیے مسجد سے باہر آتے ہی وہ اطاعت کا یہ عہد نہیں توڑ سکتا۔ اس طرح نماز اسے مسجد سے باہر بھی رب کا بندہ بنائے رکھتی ہے ۔