مریضانہ سوچ ۔ ابویحییٰ
اختلاف رائے انسانی طبیعت کا خاصہ ہے۔ یہ اس اختیار کا نتیجہ ہے جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اس اختلاف میں اس پہلو سے بڑی خیر و برکت بھی ہوتی ہے کہ ہر معاملے کے تمام زاویہ ہائے نظر سامنے آ جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری قوم کی اس پہلو سے تربیت ہی نہیں کی گئی کہ اختلاف رائے کے آداب کیا ہیں۔ کس طرح اختلاف رائے کو مفید اور مثبت فیصلہ سازی میں مددگار بنایا جا سکتا ہے۔ کس طرح مختلف سوچنے والوں کو زندہ رہنے ، بولنے اور معاشرے میں کام کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ کس طرح دوسروں کو بھی یہ حق ہے کہ وہ ہم سے الگ سوچیں اور اپنی بات کا اظہار کریں۔
ہم اختلاف رائے کے معاملے میں کتنے پست بلکہ کس درجہ مریضانہ ذہن کے حامل ہو چکے ہیں، اس کا اندازہ کرنا ہو تو کسی سیاسی یا مذہبی معاملے میں اختلاف رائے کر کے یا کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر پر تنقید کر کے دیکھ لیں۔ اس کے بعد آپ کا واسطہ دو پاؤں پر چلنے والے ایسے انسانوں سے پڑے گا جنہیں ’’۔۔ سگِ آزاد‘‘ کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ لوگ ہر اخلاقی قدر اور شائستگی کی ہر زنجیر توڑ کر اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ اور جب تک اس کی ایمان، عزت حتیٰ کہ گھر کی خواتین کے بھی بخیے نہ ادھیڑ دیں، انھیں سکون نہیں ملتا۔
سوشل میڈیا کے فروغ نے ایسے اخلاقی مریضوں کو بالکل کھول کر رکھ دیا ہے۔ فیس بک کی گلیوں میں آوارہ اور بے قابو گھومتے ہوئے یہ سگِ آزاد اپنے سے مختلف رائے رکھنے والے ہر شخص کی آواز کو اپنی آواز سے دبانے کے درپے رہتے ہیں۔ اس طرح کے مریضوں سے سماج کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ اصول طے کر لیا جائے کہ اہل دانش اخلاقی اقدار کو اپنا متفقہ مسئلہ بنالیں۔ دوسری صورت میں یہ مریض معاشرے میں اپنا زہر پھیلاتے چلے جائیں گے۔