مغرب کی نفرت ۔ ابویحییٰ
پچھلے دو ڈھائی سو برسوں میں مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کی فکری قیادت مغرب کی نفرت یا مرعوبیت کے تحت سوچتی رہی ہے۔ ان کا اپنا کوئی نقطہ نظر، ورلڈ ویو یا زاویہ نگاہ نہیں رہا ہے۔
مسلم تہذیب ہزار برس تک دنیا پر اس طرح حکومت کرتی رہی ہے کہ افریقہ سے لے کر وسطی ایشیا اور یورپ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلی ہوئی متمدن دنیا میں کوئی اس کی ہم سری اور برابری کا تصور ہی نہیں کرسکتا تھا۔ سیاست ہی نہیں تہذیب، تمدن، علم، فن، زبان، معاشرت اور تجارت میں کوئی اس سے آگے نہ تھا۔ مگر اس کے بعد یورپ میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب رونما ہوا اور زوال پذیر مسلم معاشرے ایک ایک کر کے یورپ کی غلامی میں چلے گئے۔
اقتدار کل کے بعد کلی مغلوبیت کے اس تجربے نے دور غلامی میں پیدا ہونے والی مسلم فکری قیادت کو اس توازن سے محروم کر دیا جو قوموں کی رہنمائی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ کچھ کے نزدیک مغربی تہذیب کی اندھی پیروی ہی باعث شرف قرار پائی اور کچھ نے مغرب کی نفرت کو اپنی زندگی بنا لیا۔
مسلمانوں کا اقتدار سے محروم ہونا عروج و زوال کے اس آفاقی قانون کا حصہ تھا جس کے تحت اللہ تعالیٰ اس دنیا کو چلا رہے ہیں۔ مسلمان اخلاقی طور پر کمزور ہوئے تو انھیں بغداد کی تباہی اور اسپین سے نکالے جانے کا سانحہ دیکھنا پڑا۔ عثمانی ترکوں اور سلاطین صفوی اور مغل ایمپائر کی شکل میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار گرچہ قائم رہا لیکن اس کے بعد وہ مسلسل علمی زوال کا شکار ہوتے چلے گئے۔ جبکہ یورپ میں ایک علمی انقلاب برپا ہوا جو آخر کار ان کے عالمی غلبے کی شکل میں انیسویں صدی کی سب سے بڑی حقیقت بن کر سامنے آیا۔
دو تہذیبوں کا یہ عروج و زوال اللہ تعالیٰ کے اپنے قانون کا نتیجہ تھا۔ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کی فکری قیادت نے اسے ظلم اور سازش کا موضوع بنا دیا۔ انھوں نے پوری قوم کی تربیت اس اصول پر کی کہ یورپی اقوام نے سازش کر کے کچھ غداروں کی مدد سے مسلمانوں کو مغلوب کرلیا ہے۔ دو تہذیبوں کے عروج و زوال کی اس سے زیادہ سطحی تعبیر ممکن نہیں تھی۔ مگر بدقسمتی سے یہی تعبیر لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں مغرب کی شدید ترین نفرت ہمارے فکری طبقات کے رگ و پے میں سرائیت کر گئی۔
یورپی اقوام جب مسلم ملکوں سے رخصت ہوئیں تو اقتدار کی ہما ان لوگوں کے حصے میں آئی جو جدید تعلیم کے حامل اور مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ مغرب کی نفرت اب ان لوگوں کے خلاف نفرت میں تبدیل ہوگئی۔ چنانچہ ایک طرف دنیا میں روس اور امریکہ کی سرد جنگ جاری تھی تو دوسری طرف مسلم ممالک میں مسلم اشرافیہ اور مذہبی فکری طبقات میں مسلسل کشمکش جاری تھی۔ نو گیارہ کے حملوں کے بعد افغانستان اور عراق پر حملے میں حکمران مسلم اشرافیہ امریکہ کے ساتھ تھی۔ چنانچہ نفرت کا لاوا ایک دفعہ پھر پھٹ پڑا۔ دنیا بھر میں مسلمان امریکہ کی نفرت کا شکار ہوگئے۔
بدقسمتی سے نفرت کے اس کھیل میں جو بات فراموش کر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جو قومیں علم و اخلاق میں پست ہوں وہ کتنی ہی نفرت کر لیں، ذلت، رسوائی اور شکست ان کا مقدر ہوتی ہے۔ ان کے صحافی، دانشور، علماء، واعظ اور خطیب نفرت کی آگ جتنی چاہے بھڑکائیں یہ آگ آخر کار ان ہی کے گھر کو جلاتی ہے۔
اس بات کو اگر ایک تاریخی حقیقت کے طور پر دیکھنا ہے تو دو سو سال تک جاری صلیبی جنگوں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہزار برس قبل پوپ اربن دوم نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑ کا کر یورپ کا ٹڈی دل اکٹھا کیا اور فلسطین پر چڑھائی کر دی۔ یہ مسلمانوں کا دور زوال تھا۔ مگر ٹیکنالوجی میں وہ بہرحال یورپ سے آگے تھے۔ چنانچہ گنتی کے مسلمانوں نے آخر کار یورپی اقوام کی متحدہ قوت کو ذلیل کر کے باہر نکال کیا۔ تاہم یورپ کی خوش قسمتی تھی کہ دو صدیوں کی پٹائی کے بعد انھوں نے سبق سیکھ لیا۔ اس کے بعد ان کی فکری قیادت مسلمانوں کی نفرت سے زیادہ اپنے معاشروں کی اصلاح میں مصروف ہوگئی۔
مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ دو صدیوں کی مسلسل شکستوں اور بربادیوں کے باوجود مسلمان ابھی تک یہ سبق نہیں سیکھ سکے کہ خدا کی دنیا میں نفرت سے کچھ نہیں ہوتا۔ قومی اور تہذیبی غلبے کے لیے تعمیری سوچ اور اصلاحی ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کو الزام دینے اور ان کی سازشیں ڈھونڈنے کے بجائے اپنی غلطیاں تلاش کرنا اور علم و اخلاق میں پستی کو دور کرنا اصل کرنے کا کام ہوتا ہے۔
تاہم اب جدید تاریخ میں پہلی دفعہ صورتحال بدل رہی ہے۔ مسلمانوں کی فکری قیادت میں پہلی دفعہ ایک نئے عنصر کا ظہور ہوا ہے جو مغرب کی مرعوبیت یا نفرت کے جذبات سے بلند ہو کر زوال کے اصل وجوہات کی نشان دہی کر رہا ہے۔ آج گرچہ نفرت پھیلانے والوں کا سودا سب سے زیادہ خریدا جا رہا ہے، مگر زیادہ وقت نہ گزرے کا کہ یہ آواز سب سے زیادہ موثر ہوجائے گی۔ یہی دن مسلمانوں کے عروج کا پہلا دن ہوگا۔