لونڈی کا بیٹا ۔ ابویحییٰ
انسانی تاریخ میں ایک طویل عرصے تک لونڈی غلاموں کا رواج رہا ہے۔ ان لونڈی غلاموں پر ان کے مالکوں کو اتنا ہی اختیار ہوتا تھا جتنا آج ہمیں اپنے کپڑوں، برتنوں اور اپنی ملکیت کی دیگر چیزوں پر ہے۔ یہ گرچہ اپنی ذات میں ایک انتہائی مکروہ اور آج کے دور میں ناقابل تصور چیز ہے کہ انسان دوسروں کی اس طرح ملکیت بن جائیں لیکن ایک زمانے میں یہ انسانیت کی بہت بڑی سچائی تھی۔
تاہم اس حوالے سے دو باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق عام طور پر موجودہ زمانے کے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ایک یہ کہ سارے آقا اپنے لونڈی غلاموں پر بہت ظلم کرتے تھے۔ یہ بات درست نہیں۔ اُس زمانے میں برے آقا بھی ہوتے تھے جو ظلم کرتے اور بڑے مہربان آقا بھی ہوتے تھے جو غلاموں سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے۔
دوسری یہ کہ وہاں ہر لونڈی جنسی مقاصد کے لیے نہیں خریدی جاتی تھی۔ زمانہ قدیم میں غلامی کا ادارہ موجودہ دور کی سروس انڈسٹری کا کام کرتا تھا۔ اس لیے لونڈیوں کو رکھنے کا ایک مقصد گھر کے کام کاج کے لیے ملازم رکھنا ہوتا تھا۔ اچھے مالک غلاموں سے ان کی شادیاں کرا دیا کرتے تھے۔ ان کے بچے بھی ہوتے اور وہ اپنے شوہروں کے ساتھ اچھی زندگی گزارتی تھیں۔ ان کے بچے مالکوں کے گھروں میں ایسے ہی رہتے تھے جیسے آج کل گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کے چھوٹے بچے مالکوں کے گھروں میں آجاتے ہیں۔
آج بھی اچھے لوگ اپنے ملازموں، ماسیوں اور ان کے بچوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کرتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں بھی اچھے مالک اپنے لونڈی غلاموں اور ان کے بچوں کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرتے تھے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیا کی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک جملہ بارہا ملتا ہے۔ یعنی میں تیرے غلام کا بیٹا ہوں۔ میں تیری لونڈی کا بیٹا ہوں۔
یہ جملہ کوئی معمولی جملہ نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا متوجہ کرنے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ کریم اور مہربان آقا اپنے غلاموں پر تو شفیق ہوتے ہیں، مگر ان کی اولاد پر بدرجہ اولیٰ مہربان ہوتے ہیں۔ لونڈی غلام تو مالکوں کی کچھ نہ کچھ خدمت کرکے ان سے بدلہ پاتے ہیں، مگر لونڈی غلاموں کی اولادیں بلااستحقاق مالک کی نظر عنایت کی صرف اس وجہ سے مستحق ہوجاتی ہیں کہ وہ ان کے غلاموں کی اولاد ہیں۔
اللہ رب العالمین ہر چیز کا مالک ہے۔ ہر عورت اور مرد درحقیقت اس کے لونڈی غلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جب کوئی بندہ اپنے عزت و شرف کو ایک کونے میں رکھ کر صرف اپنے آپ ہی کو نہیں بلکہ اپنے باپ کو خدا کا غلام اور اپنی ماں جیسی صاحب عزت خاتون کو خدا کی لونڈی قرار دے کر اس کے سامنے فریاد کرتا ہے تو گویا وہ بالکل درست جگہ سے خدا سے مخاطب ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لیے انسان ہی نہیں اس کے ماں باپ بھی خدا کے لونڈی غلام ہوتے ہیں۔
جو شخص خدا کو اس جگہ سے مخاطب کرنا شروع کر دے، اللہ تعالیٰ اس کی دعا ہر حال میں سنتے ہیں۔ اس کی مشکل ہر صورت میں دور کرتے ہیں۔ اس کی فریاد پر فوری توجہ کرتے ہیں۔ اس لیے کہ خدا اپنی کسی لونڈی کی فریاد سے تو کسی وجہ سے صرف نظر کرسکتا ہے، مگر لونڈی کی اولاد کی فریاد کو کبھی نہیں ٹالتا۔ اس لیے کہ پکارنے والے نے اپنی عزت کو خاک میں ملا کر خدا کو پکارا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو پست ترین جگہ پر رکھ کر خدا کو پکارا ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کو پکارنے کی سب سے درست جگہ وہی ہے جہاں انسان خود کو پست ترین سمجھ رہا ہو۔ جو یہاں سے خدا کو پکارتا ہے وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔