عجز اور قدرت ۔ ابویحییٰ
معاشرے میں حکومتی نظم و نسخ قائم کرنا انسانوں کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر کچھ لوگوں کو حکومت کرنے کا اختیار نہ دیا جائے تو معاشرے میں انار کی پھیل جائے گی۔ چنانچہ امن و امان کے قیام، بیرونی جارحیت سے اپنے دفاع اور دیگر بہت سے اہم معاملات چلانے کے لیے حکومت کا نظم قائم کیا جاتا ہے اور اسے بہت سے اختیارات دیے جاتے ہیں۔ مگر ان اختیارات کا نتیجہ بارہا یہ نکلتا ہے کہ حکومت کرنے والے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور طرح طرح کی قانونی پابندیوں اور مطالبات میں عام لوگوں کو جکڑتے چلے جاتے ہیں۔
خاص کر ترقی پذیر ممالک میں جہاں عوام میں بہت زیادہ شعور نہیں ہوتا، صاحب اقتدار طبقات طرح طرح کے غیر ضروری قانون بنا کر عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑے رکھتے ہیں۔ عام لوگ جب ان بےجا قوانین کی پابندی نہیں کر پاتے تو قانون کے رکھوالے انھیں سخت سزاؤں اور جرمانے کا خوف دلا کر ان سے ناجائز پیسہ حاصل کرتے ہیں۔ نتیجتاً عوام خوف کے عالم میں زندگی گزارتے اور جبر کی اس چکی میں پستے رہتے ہیں۔
حکمران جتنے بھی طاقتور ہوں، ان کے اختیار و اقتدر کی ایک حد ہوتی ہے۔ لیکن اس دنیا میں ایک دوسری ہستی ہے جو انسانوں پر کلی اختیار رکھتی ہے۔ اس کے خلاف نہ بغاوت ہوسکتی ہے اور نہ اس کی بادشاہی سے نکل کر بھاگا جاسکتا ہے۔ اس کا اقتدار انسانوں کا عطیہ نہیں کہ اس کے کسی فیصلے پر آواز اٹھائی جاسکے۔ انسانوں کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سرتاسر اسی کا دیا ہوا ہے۔ اس لیے اس کی طرف سے کیا گیا ہر مطالبہ ایک مکمل اخلاقی جواز رکھتا ہے۔ یہ ہستی اللہ جل جلالہ کی ہے جو انسانوں کا حقیقی بادشاہ اور مالک ہے۔
انسانوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو جو مکمل اور یکطرفہ اختیار و اقتدار حاصل ہے، اس کے بعد یہ عین ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر سخت قسم کے قوانین، ضابطوں اور مطالبات کا بوجھ ڈال دیتے اور انسانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا کہ وہ اس کے ہر ہر حکم اور قانون کی تعمیل کریں۔ مثلاً وہ کہہ سکتے تھے کہ روزوں کی پابندی ایک ماہ کے بجائے تمام سال کے لیے ہے۔ وہ دن میں پانچ کے بجائے پچاس نمازوں کو فرض کرسکتے تھے۔ وہ ہر سال ہر شخص کے لیے حج فرض کرسکتے تھے۔ وہ زکوٰۃ کی شرح انسان کے مال کا ستر فیصد تک مقرر کرسکتے تھے۔
دین کے فرائض کے علاوہ دین کے کمال کو بھی وہ انتہائی مشکل احکام پر منحصر کرسکتے تھے۔ مثلاً عیدالاضحی پر وہ انسانوں سے ان کے پہلونٹھی کے بچے کی قربانی مانگ سکتے تھے۔ اعتکاف کی عبادت میں بولنے پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی تھی۔ غرض اس طرح کی ہزار پابندیاں لگانا ان کے لیے بالکل ممکن تھا اور انسان اس کے مقابلے میں چوں بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ان احکام کی خلاف ورزی پر جہنم کی سزا ملتی اور جنت کے اعلیٰ درجے کا حصول خواب و خیال کی بات ہوتی۔
مگر اس قادر مطلق کی رحمت کے قربان جانا چاہیے جو اپنی تمام تر طاقت کے باوجود انسانوں سے اتنے آسان مطالبات کرتا ہے جن کا پورا کرنا قطعاً مشکل نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان احکام پر عمل کرنے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ ہے اور نہ اسے ان سے کچھ ملتا ہے، بلکہ ان میں تمام تر فائدہ انسانوں ہی کا ہے۔ مگر اس کے باوجود سانحہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت خدا میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے اور نہ اس کے بہت آسان احکام کی پیروی کو اپنا مسئلہ بناتی ہے۔
آج لوگوں کو صرف اسی ایک بات کا احساس ہوجائے کہ خدائے قدیر کے مقابلے میں وہ کتنے بے بس ہیں، اس کریم کے ان پر کتنے احسانات ہیں اور اس حقیقت کے باوجود اس کے مطالبات کتنے آسان ہیں تو وہ بے اختیار سجدے میں گرکر اس کی حمد و تسبیح کریں گے۔ ان کی زندگی سراپا بندگی بن جائے گی۔ یہی لوگ عنقریب خدا کی رحمت کا ذائقہ سب سے بڑھ کر چکھیں گے۔